Skip to content

143. آہٹ ، کروٹ، سِلوٹ

Abdul Basit Zafar at Forman Christian College

آج پوچھے ، شباب کی ہر ہر کروٹ پر ، جو آہٹ تھی، وہ کس کی تھی؟
آہٹ!
اب کہ فارمین کرسچن کالج میں قیام پذیر ہیں اورنثار اؔختر سنتے ہیں ؛
؎ آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اور صرف اتنا ہی نہیں پھر دیکھا تو لیپ ٹاپ پر جگجیت سِنگ کی آواز میں فراؔق کہتے ہیں؛

؎ بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

آہٹ کو پہچاننے والا چاپ نہ سُنتا ہوگا؟
آپ نے درست فرمایا!چاپ او جاپ سننے والا جاب اور خواب بھی رکھتا ہے،
آہٹ کو آہٹ سے، اور چاہت کو چاہت سے جدا سننے والا، کروٹیں بھی گنتا ہے!

دیکھ لیجیے!

فرمائے کروٹ کروٹ میں سِلوٹ سِلوٹ سا اعتبار ہے!

جی صاحب! فراؔق جن آہٹوں کو سُنتے تھے، ہم اُن کروٹوں کو لکھتے ہیں،
اتنے میں ظفرؔ گورکھپوری بھی سُن لیے اور پنکھج اُداس کی آواز میں گنگنانے لگے ؛
؎ اور آہستہ کیجیے باتیں
دھڑکنیں کوئی سُن رہا ہوگا

وہ سُننے والا، وہ دیکھنے والا!
آہ کی آہٹ!
کاف کی رَٹ!
۔۔۔

کروٹ ثروت
کروٹ برکت

۔۔۔۔۔۔