ناولیٹا
دیکھیے صاحب صاف سی بات ہے کہ بالغ حضرات تو ایک طرف، بچے بچے کی جیب میں طلسماتی آئینہ ہے، جس پر دنیا جہاں کا غل غپاڑا دیکھ لیں گے، نت نئے گیت، دُھنیں اور ساز باز سن لیں گے ، سر بھی دُھن لیں گےمگر وہی کوئی ہم زبان ، ہم وطن ایسا گیت گا دے، تو فلاپ ہو جاتا ہے۔یا پھر مغربی دنیا کی نقالی کا ڈھپہ لگا دیں گے ۔ اِسی طرح ولائتی فلموں میں اداکاروں کے عُریاں مناظر دیکھنے میں بھی کسی کو ہرگز عار محسوس نہیں ہوتی،الٹا شوق سے ملاحظہ فرمائیں گے ۔ جبکہ اپنے اَسکرپٹ پر بیسیوں سنسر لگا رکھیں گے ، اور تو اور ، انگریزی رومانوی اور بالغ ادب میں فحش لفاظی ، گالم گلوچ اور الڑم پلڑم سے نہ تو کتاب کا معیار گھٹتا ہے نہ ہی قاری کا لطف۔ اگر یہی جسارت کوئی لکھاری اردو میں کرنے کی کوشش کرے تو کھلواڑ ہو جاتا ہے ! یہی کوئی نثر کی منچھ پر دو رنگ زائد بکھیر دے تو اُسے ہوس کا پجاری، کانٹروورشل ادیب، یا ملعون و زندیق کہہ کر "پھانسی دو پھانسی دو" کے نعرے لگائے جاتے ہیں، ٹائر جلائے جاتے ہیں ! ایسے میں کوئی لکھاری کیا کرے؟
رہی بات عالمی ادب کو اردو زبان میں چھاپنے چھپوانے کی تو یہ زبان بردار مترجم اوّل تو ادب میں تصحیف و تحریف کریں گے یعنی اُس لفظ کو کسی متبادل سے بدل دیں گے یا پھر متن کا قابلِ اعتراض اقتباس سراسر ہذف ہی کر دیا جائے گا۔
دُکتر عبدالباسط ظفر