اہلِ اعتزال کا تصورِ انسان
دینِ اسلام کے اوائل دور اور بالخصوص زمانہ نزولِ وحی سے ہی ایمان والوں میں دو بڑے علمی روّیے مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ اوّل وہ جنہوں نے ایمان بالغیب کو بلا تحقیق، مِن و عن صدقِ دل سے قبول کیا اور دوسرا فکری روّیہ سراسر کھوج اور تحقیقی کا علمبردار بنا۔ اِسی علمی اور عقلی روّیے سے اوّل متکلمین نے دینِ اسلام کے عقائد اور نظریات کو عقلی توجیہات سے مزّین کیا اور دیگر ادیان کے مقابل ایک مدّلل گفتگو، تحقیقی ابحاث کو اختیار کیا اور ایک نئے طرز کے فلسفیانہ اُسلوب کو اختیار کیا۔ ایسے جملہ متکلمین ، علم الکلام کے مباحث میں امام حسن البصری کو ، اور اُن کے توسط سے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اپنا امام سمجھتے ہیں۔ مورخینِ الٰہیات کے یہاں ، اوّل طبقات کے معتزیلی شیوخ ، اصحابِ رسول اور اہلِ بیتِ اطہار کے علمی اور سیاسی رفیق بھی شمار کیے گئے ہیں۔
زیرِ نظر تصنیف آپ کی ڈاکٹریٹ کے ایک حصہ کی بر زبانِ ترکیہ اشاعت ہے جس میں وہ معتزیلی علم الکلام کے شیخ قاضی القضات عبدالجبار الحمدانی کی جلیل القدر تصنیف “المغنی فی الباب التوحید و العدل سے استفادہ کرتے ہیں اور اہلِ اعتزال کے تصورِ انسان، روح بدن کی ثنویت اور روح کی حقیقت جیسے مضامین پر وضاحت کرتے ہیں ۔ ایسے میں وہ معتزیلی علم الکونیات ، ایپسٹی مولوجی پر روشنی ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسانی بدن بھی جملہ موجودات کی طرح ایک موجودگی سے موافق حالت ہے۔ اِس کتاب میں جدید الٰہیات اور کلاسیکی اصطلاحات کو جاننے کا ایک سنہری موقع ہے۔ مستقبل میں وہ اپنی اِس تصنیف کا اردو ترجمہ بھی عام قاری کے لیے کرنا پسند کریں گے۔
دُکتر عبدالباسط ظفر
انقرہ ۲۰۲۳