یہ سلسلہ نشست و برخاست ہمارے مرّبی و ہر دل عزیز کے وہ بیانات ہیں جو مجاذیبانہ اُسلوب میں نقل کیے گئے ہیں ۔ ظہورِ حقیقت کے کئی مکاشفات اُن پر ہوئے تھے، اِس بارے اُن کے بچپن کے دوست، اوائل عمری کے رفیق اور شباب کے ساتھی جانتے ہیں۔ البتہ “بَون کا بنجارہ” کے نام سے یہ سلسلہ اُن کے یورپ کے قیام میں ایک خصوصی اجازت ملنے پر جاری کیا گیا۔ اِس سلسلے میں فقر و سکر کے ایک منفرد اُسلوب میں اُن کے مکالمے اور مکاشے ایک طرح کے مذاکرے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں. . . شعور کی رَو میں فرمائے گئے یہ مضامین اُن کی اردو زبان سے محبت کا ایک مخصوص انداز ہے .. اِن ذو معنی الفاظ اور جملوں میں وہ لسان و زبان کے رائج رویوں سے کج روی اختیار کرتے تو ہیں لیکن اِس کج روی کو وہ خطوط و اصوات کا طلسمی آہنگ سمجھتے ہیں۔
آپ کا کہنا ہے کہ آہنگ، سنگ سے ہے اور سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے ..
تو آہنگ کیوں نہیں ہے؟ اُسی پوشیدہ آہنگ کے لیے، پیشِ خدمت ہے ، "بون کا بنجارہ”
دُکتر عبد الباسط ظفر