باجُو بَند بِروا
دیکھیے! یہ تحریریں کم عمر، نو بالغوں کی جیب اور ناٹے ذہن کی دَسترس سے پَرے کی ہیں اور پَرے ہی رہنی چاہیں !
لگے ہاتھوں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بعید نہیں قدامت پرست انہیں جلا کر سینکیں ، لونڈے لپاٹے اِن سے ہنسی کریں اور سنجیدہ بوڑھے نفرین بھی۔ عین ممکن ہے، روایت پسند جیالے اِن تحریروں کو اپنی بیبیوں بالیوں سے چھپا کر رکھیں کہ مباد ا وہ بگڑ جائیں گی۔ اہلِ زبان کے روشن خیال طبقے کو اِن تحریروں میں خدا ، اور مذہب جیسے عنوانات سے گلا گھٹتا محسوس ہو سکتا ہے اور مطالعہ سے پیدل آدمی کو تحریر کی ساز باز سے بوریت ہونا بھی یقینی اَمر ہے ۔ تو ایسے میں پبلشر اور قاری دونوں پوچھ سکتے ہیں کہ بھائی میاں یہ تحریریں، یعنی وقت کی یہ متعین لکیریں، کن کے لیے چھاپے ہو؟ کاہے لکھے ہو؟
کیا یہ اُن کے لیے ہیں جو چلنا جانتے ہیں ، اور سیدھے راستے پر ہیں؟
تو نہیں جناب، ایسا ہرگز نہیں ہے !
یہ جوکھ، تو اُن کے لیے ہیں جن کو چلنے میں لکنت ہے ، جوذرا سنبھلے نہیں کہ لڑکھڑاتے ہیں اور اُن کے لیے بھی جو قدم اُٹھاتے ہی گر چلے ہیں اور اُن کے لیے جو گر چکے ہیں، زمین بوس ہیں ..
یہ بلائے قلم و کتاب اپنے سر ڈالنے والوں کا ، یہ وبالِ لفاظی اپنے گلے پڑوانے والوں کا شکریہ .. آپ جانیں، کتاب جانے !
براہِ مہربانی قیمت دے کر وصول کریں، کرتے رہیں ، خرید کر پھاڑیں! کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح”فائدہ “ تو ہوگا۔
دُکتر عبدالباسط ظفر
جمہوریہ ترکیہ۲۰۲۰