Skip to content

گیسو گوش گزار

موجودہ مسودہ ،  کجرے بالم کی دراز گیسو کا تذکرہ ہے ،جی ! نہیں سمجھے آپ! بھئی ، یہ ایسا ہی تذکرہ ہے ، جو کہ کیسریا پیا  کی زلفوں کی مانند پیچ در پیچ ہے ۔ مانو تو اُن پیچوں سے ہوئی اِک گفتگوِ نا تمام ہے یا جانو تو یہ سفرِسلوک کی اُن کیفیات کا بیان ہے، جن کا طالب وصل کی رات ، بجائے وصل منانے کے، ملن کے شادیانے بجانے کے ، واصل و وِصال کی گتھیاں سلجھانے لگتا ہے .. یہاں تک کہ موُا  سلجھاو میں مزید اُلجھتا ہوا ، گم ہو جاتا ہے یا شاید ضم یا پھر زَم ہو جاتا ہے۔ بھئی، یہ ایک ایسے وصل کا بیان ہے ، جس کا واصل اپنے ہجر کی آشفتہ سَری میں ، مُورتوں کی صورتوں میں، سو رَتن ہو جاتا ہے،  ہوش بیہوش،  مَد ہوش ،  پھر سرَہوش ہو کر،  اپنا آپ گنوا بیٹھتا ہے ۔ کوئی پوچھے تو کہ سناو کیا ملا؟ تو اپنا حاصل ِحیات  محبوب کی زلفوں کا لمحاتی  لمس بتاتا ہے۔ کہتا ہے کہ گھنگور گھٹاوں سے گھنگھریالے گیسووں کا فریبِ پیہم میسر ہے، یہی فریبِ لمس اُسے ایسے   ماجروں میں اتارتا ہے ، جن کے احوال یہاں شستہ و رفتہ نہ سہی ، شکستہ و برُیدہ دَرج ہے ، وہی سے ،یعنی یہی سے ، زُلفِ  یار  سے گیسو گوش گزار تک ، کائناتی پیچ   اُس کے دَرانداز ہو جاتے ہیں ۔ ناول نگار اِسے کتاب ، روزنامچہ یا کسی نئی طرز کا ادب نہیں کہتا،  وہ تو  اِسے کتاب کہنے سے بھی کتراتا ہے، البتہ   وہ اِسے ایسی حکایت کہتا ہے ، جس کے کردار اپنے اپنے عکس کی تلاش لیے ، آئنوں کی چار دیواری میں بے رنگ و بینا پائے جاتے ہیں ، یعنی وہ رَموز و اوقاف، جن سے  گیسووں اور گوش(ہ) گزاروں کے سوا کوئی  واقف نہیں ہوتا، کیا اُس کے ہاتھ لگے تھے ؟  یہ تو قاری ہی بتا سکتا ہے ۔   گیسوئے یار سے مات کھانے والا راقم  کہتا ہے کہ گر گیسو نہ بن سکو تو ، گوش بن جاو ،  سنو ، سنتے رہو ،  یہاں تک کے گیسو گوش گزار ہو جائیں !  یہ  دراز گیسو ،  یہ ""گیسو گوش گزاری"  اُسے اِس گگن کی  گھن گرج ، گریہ و گریباں کی چاکی سے  ہستی کی زلفوں کی  ناچاقی تک،وہاں سے کون و مکان کی چھّن چھّن تک ایک سی الجھن محسوس ہوتی ہیں ۔امید ہے آپ بھی محسوس کر پائیں گے!

دُکتر عبدالباسط ظفر 
جمہوریہ ترکیہ   ۲۰۱۵