نیلی نظمیں
زیرِ نظر کتاب(نیلی نظمیں) کی عمر اور ہمارے تعلق کا دورانیہ ایک سا ہے۔ اس کا آغاز 2006 ،کہوٹہ سے ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں عبد الباسط ظفر کی بہت سے باتوں کا ناقد رہا ہوں لیکن اس بار یہ ذمہ داری خود جناب نے مجھ پہ ڈالی ہے۔ بطور قاری رائے دینا آسان سہی لیکن اب کی بار بحیثیت رفیق تنقید کرنا سہل نہیں۔ اس لیے بطور قاری ہی چند باتیں عرض کیے دیتا ہوں۔ یہ نظمیں فکر کے اعتبار سے پختہ اور آفاقی ہیں۔ان کے موضوعات ایک ازلی تلاش کا پتا دیتے ہیں۔ جبکہ فنّی پیچ و خم پہ بحث کی جاسکتی ہیں لیکن میری نظر میں "فکّر" فن کی ضرورت ہے، "فن" ، فکّر کی ضرورت نہیں ، اس لیے ہم اُس طرف نہیں جاتے۔ جس عمر میں طالب علم موم کی مورتوں کے نقش و نگار سنوارنے بگاڑنے میں مصروف ہوتے ہیں ، یہ صاحب ، اپنی ذات اور ذاتِ حق کے مابین تعلق کی گتھیاں سلجھانے میں خود کو درپیش رہے اور یقیناً اب بھی ہوں گے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ان تمام نظموں کا "خیال" ذاتِ قدیم کا "خیال" ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ لفظوں کی بُنت میں جو گانٹھیں لگیں ہیں اور اُن میں جو معنی ٰپوشیدہ ہیں اُس پہ ذرا غور کیجیے تو اپنی ذات کی گرہیں کھولنے میں آسانی ہو گی۔ بلاشبہ ان نظموں کی تمام تشبیعات، تلمیحات، اشارے، کنائے اور استعارے ، اس بات کے غمّاز ہیں کہ ایک "کھوج" ہے جو مسلسل الفاظ کے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ وہ کبھی دل کے دریچوں کو نیم وا رکھتا ہے کہ پیام یار کا گزر ہو، کبھی ناخدا کی منتیں کرتا ہے کہ نیّا پار لگا دے ، ساجن سے ملا دے۔ اسی سفر میں کہیں کوئی جوتشی دِکھا تو اُس کے آگے بھی ہاتھ بڑھا دیے کہ بتا ہمرے نصیب میں ملن ہے کہ نہیں!!!
مجھے معلوم ہے کہ یہ "حرفے چند" حقیقتاً حرفے چند ہی ہیں۔ لیکن کچھ تو تشنگی باقی رہنی چاہیے کہ قاری اگلے صفحے کو پلٹے ۔۔۔
اس لیے یہ کتاب آپ کو جہاں بھی دِکھے، مفت ملے یا خریدنی پڑے، ضرور پڑھیں ۔
تبصرہ: علی احمد (ایم ۔فل اُردو)
ایف سی کالج ، لاہور