Skip to content

نیلی نظمیں

یہ نوجوان شاعر جو ناول نگار بھی ہے اس کی نظموں کا بنیادی موضوع خدائے قدیم اور اس کی ذات ِ موجود ہے۔ وہ خدا کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔اُن تمام بتوں سے نجات چاہتا ہے جو پردے کی مانند حائل ہیں۔ یہ وہ گیت ہیں جو اُس نے خدا کی جستجو میں گائے ہیں۔ اک دائمی ہجر لاحق ہے اسے اور وہ جلد وصل کا طلبگار ہے۔ وہ ذرے میں کائنات دیکھنے کا خواہاں ہے۔ وہ اپنی ادھوری زندگی سے شکوہ کناں ہے۔ اک کسک ہے جو اس کے دل میں کھٹکتی ہے۔ ان نظموں میں تصوف کا حوالہ بھی سامنے کی چیز ہے۔ ان نظموں میں قرآنی آیات کا مفہوم نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندو دیومالائی استعارے بھی استعمال کرتا ہے۔ نیؔا کا استعارہ اکثر نظموں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اور اس سے جڑے الفاظ کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں جو آج کے معلوم نہیں ہوتے۔ ہندی روایت کے الفاظ :جوتشی، سنسار، بیوپار، بالک، ناٹک، سمے، کھیون ہار، بھاگ بھری، کاہن،کلجگ، سندھور اور کویتا جیسے الفاظ کا استعمال باسط نے احسن انداز سے کیا ہے۔ کہیں کہیں ابنِ انشا کا رنگ چھو کر گزرتا ہے اورکہیں واصف علی واصفؒ کی تحریر کا عکس بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
یہ زمانہ طالبعلمی کی نظمیں ہیں ۔ اس لیے اکثر نظم کے اوازان کا خیال نہیں رکھا گیا۔ الفاظ کہیں گر پڑتے ہیں جہاں انھیں اٹھنا چاہیے۔ لیکن پھر بھی اس عمر میں ایسے پختہ خیالات کا اظہار خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے شاعر کے وسیع مطالعہ کا بھی اندازا ہوتا ہے کہ وہ قرآن کے بنیادی موضوعات سے بھی واقف ہے اور ہندوستان کی روایت بھی اس نے دیکھ رکھی ہے۔
یہ نظمیں یکطرفہ مکالمہ ہیں جس میں سامنے والا خاموشی میں میں گویا ہے اور یہ الفاظ کی تتلیاں(butterflies) اڑا رہا ہے۔
مختصراً ، یہ کیفیاتی نظمیں ہیں جن کا اظہار ایک بہت ہی عمدہ کاوش ہے

علی احمد(ایم فل اردو)