نین نویٰ
کہتے ہیں لب نہیں بل کہ آنکھیں بولتی ہیں ، اور اُن سے ملے پیغام میں سچائی اور صفائی ہوتی ہے ،یعنی” رہے دونوں خاموش اور بات کرلی “کے مصداق۔ تو صاحب، وہی بات میں بھی کرنا چاہتا تھا ! آپ سے ، اور آپ سے اور صاحِب آپ سے .. مجھے بھی ایسی گویائی چاہیے تھی ، وہی نظر ، وہی نُطق ، جو اب کہیں مجھے "نین نوا "کی صورت میں میسر ہوا .. دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو تو طارق ؔعزیز صاحِب مخاطب کیا کرتے تھے ۔ میری یہ بپتا ، بولتی آنکھوں اور سنتے چہروں کے نام ہے ..! اُن تمام مہمل آوازوں کے لیے ، جنہیں سماعت میسر نہ ہوئی..
؎ نی سیّو ، اَسی نیناں دے آکھے لگے !
اگرچہ بہت سے خیال ناقص اور بیان نا مکمل رہے ۔ الفاظ نے کسی طور معاونت نہیں کی، اِس کے باوجود میں نے حتیٰ الاِمکان کوشش کی ہے کہ لفظوں کو اُن کے اُسی قالب میں محفوظ کرسکوں جن میں وہ اُترے یا جس بھی زمانے میں لکھے گئے ... اور جہاں تک یہاں موجود کتاب کےکرداروں کے اعمال ِ خالصہ کا تعلق ہے، جنہیں میں حسنات و سّیات سے مبرا "خالص" کہہ رہا ہوں ، تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے انسانی عوامل، جن کو راقم الحروف بیشتر مقامات پر اپنی کج فہمی کے ساتھ ،خیال سے اعمال تک کی سرزَدگی کو ،کبھی مدافعانہ تو کبھی جارحانہ انداز میں، مختلف وجوہات اور دلائل کی روشنی میں سمجھنے کا جتن ضرور کرتا ہے مگر وہ افعالِ پُر اخلاص کسی رائج منطق پر ، اَن ہو نے عذر پر، ڈگر و نگر پر ٹھہرتے یا مکمل اترتے دِکھائی نہیں دیتے ... اُمید ہے، آپ اِنہیں سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے سراہیں گے۔ اگر بہت سمجھ نہ پائیں تو اِسے ایک بے تکی بے ڈھنگی ادبی کاوِش کے طور پر نظر انداز کر دیں . . . گر، وہ بھی نہ بن پایا، تو ایک نیم شب کے دُھندلے خواب کی مانند بھول جائیں اور میری تقصیر معاف فرما دیں !
دُکتر عبد الباسط ظفر
جمہوریہ ترکیہ ۲۰۱۸