Skip to content

141.ب کا دم!

ب کا دم

باغ و بہار میں ..
آپ ابھی اتنا ہی کہے تھے ، کہ ہم جان گئے باغ و بہار میں، جو بلبل تھی ، وہ ب سے ہی تھی!
ب ہی شمع فروزاں اور ب ہی رشکِ چمن !
ایسے میں ہم محوِ پرواز ہیں کہ راہ میں جنابِ شبسرتی چلے آئے ؛ ب کی بستری، شب کی شب، ب کی بے!
جی صاحب! آپ کے نامِ نامی کے تہجی پر دھیان کیے اور ساتھ ساتھ چلتے گئے..
پھر ایسا بھی ہوا کہ خواجہ پیِر ترکستان نے ہمارے الف اور نقطے کا ب بنا دیا! اور محبت سے بتایا کہ رزّق کی فراوانیوں کو جانو! فرمائے، رزق کی فراوانیاں ، سراسر حیرانیوں پر مبنی تھیں ! فراوانیاں؛ وادیِ فاران سے، حیرانیاں حرّان کی گھاٹیوں تک پھیلی ہوئی تھیں، اور اُن میں بنتے بگڑتے ہجوں کا ظہور ، سراسر ہو رہا تھا!
، دوپہر قسطنطنیہ میں کیے اور شام کو الف سے احمد اور ی سے یسوی کے “دیوانِ حکمت” میں چلتے گئے !
یوں کہ آپ جانتے تھے کہ دیوان اور دیوانے میں جو بھی نکتہ ہے وہ ب کا ہی ہے!
ہم سے کہے کتنے ہی ہجے لے جاو لکھے جاو، لیے جاو!
مگر ہم ب نہ بیچیں گے!
اور کہیں گے؛

اسی ویکھ کے صورت دلبر دی
اَج بے صورت نوں جان گئے
بنا عین "عرب” بنا میم احمد
اساں یار نوں خوب پچھان گئے

اور پھر پِیرِ تُرک فرمائے؛
جیسی صورت عین دی ویسی صورت غین
اِک نطقے شور مچایا اَے ..

ایک مدت بُلھہے شاہ سرکار کے الف اور نقطے کو ساتھ میں چلتا رہا، نقطے کا شور ایک ٹیپ ریکارڈر سے نکل رہا ہے، آپ بھی سنیے گا، ہم نے ننھی انگلیوں سے بٹن دبا دیا؛
؎ جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے
سب نے یہ شور مچایا ہے
سال گرہ کا دن آیا ہے
۔۔
وہ جنم کا ہونا، وہ روپ دھارنا، وہ مایا جال میں ، جَن جال میں اور ہر کسی حال میں، ہونا، ہونے میں ہونا، وہ نقطوں ، نطفوں کا شور، وہ املا کی غلطیاں! اور اُن سب کے بیچوں بیچ!
جی صاحب!
ب کے عین درمیان!
جو نون نقطہ میرے ہاتھ لگا تھا ! وہی جنگل اور منگل میں موجود تھا!
ہونے کا نقطہ! “خوب کی پہچان کری تو دیکھتے ہیں خوب میں بھی نقطہ “ہونے” کا ہی ہے!
فقر کے قاف کا نقطہ!
ب کا دم
ہوتا رہے!

۔۔۔۔۔