مقدمہ:
( خدا نے آدم کا بت بنایا اور فرشتے یہ دیکھتے تھے….پھر جب ذاتِ حق نے ان میں اپنی روح پھونکی۔۔
وہ روح ِذات جس نے بت کو ،مجسمے کو ،مظہر ظہور ذات میں بدلا تو بھی فرشتے یہ دیکھتے تھے۔۔
مگر اَب اُن میں ابلیس یہ منظر ناں دیکھ سکا…. وہ اُس بت کو ہی دیکھتا رہا جسے یزداں نے کھنکھناتے گارے سے بنایا تھا۔۔۔
خدا نے اس مٹی کو سجدہ نہ کروایا مگر اس میں اپنی روح پھونکنے کے بعد، اپنے کلِمات کے نزول کے بعد فرشتوں کو اسکے آگے جھکنے کا حکم دیا…
جس پر ابلیس نے انکار کیا اور کہا کہ میں ہرگز بت پرست نہیں بن سکتا…خدا نے ابلیس کو بھی اپنی معرفت سے نوازا تھا اسے بھی دانائی اور بینائی عطا کی تھی۔۔
مگر اسنے اپنی نظر کو صحیح معنوں میں استعمال نہ کیا تھا!
اور اسے اپنا شعور اور بینائی استعمال نہ کرنے کی پاداش میں… یعنی حقیقتِ ثانی سے انکار پر معتوب کیا گیا…)
پہلا منظر۔۔
یزداں نے کہا کہ ائے ملائک سنو، تمہارا جواز حق ہے کہ یہ خاک کے سوا اور کچھ نہیں…اور تم نے اسکی تخلیق کے تمام مراحل بھی دیکھے اور بے شک یہ میرا حکم ہی ہے کہ تم ہرگز بت پرستی نہ کر سکو گے مگر ابلیس سے پوچھو تو کہ ایسی کیا آفت آن پڑی کہ یہ میری مجسمہ ِ آدم سے محبت نہ دیکھ سکا..اور میں نے جب اِس مورت کو حیات و ممات کے چکر میں دکھیلا تو یہ کیونکر، اِس حقیقت سے دور رہا کہ، مورتیں بدلتی رہیں گی..صورتیں چلتی رہیں گی…
یہ کیونکر،اِس حقیقت سے دور رہا کہ، مورتیں بدلتی رہیں گی..صورتیں چلتی رہیں گی...
مگر اِس مجسمہِ آدم صرف ایک ہی شے دائمی اور برقرار رہے گی۔۔
وہی میری الوہی معرفت اور وجدانِ ازل جس سے یہ نوازا جا چکا ہے…اور میں نے ہر گز کسی مخلوق کو بت پرستی کی اجازت نہیں دی اور تم سب دیکھتے تھے..
(فرشتوں نے تسلیم بجا لائی اور ٹھوڈیوں کے بل گر پڑے)
دوسرا منظر۔۔۔
ایک فرشتہ گیا اور ابلیس کو ڈھونڈنے لگا جو بہشت کے داخلی دروازے کے ساتھ سر گٹنوں میں دبائے بیٹھا تھا۔۔
فرشتہ کہنے لگا،ابلیس! یزداں نے تمہیں طلب کیا ہے اور تم یہاں یوں اداس کیوں بیٹھے ہو..؟ تمہاری اُداسی بھی یزداں پر ناگوار گذرتی ہے وہ تمہیں اسطرح پریشان نہیں دیکھ سکتا…اور تم جانتے ہو کہ وہ ہم پر بہت مہربان اور نہایت شفیق ہے۔۔۔
تیسرا منظر۔۔۔
ابلیس دربارِ یزداں میں حاضر ہوتا ہے اور سر جھکائے تسبیحات و تمجید بیان کرتا ہے۔۔
خدا پوچھتا ہے کہ ابلیس بتلاو تم نے میرے حکم سے کیوں رو گردانی کی؟ ائے استادانِ ملائک تمہیں ہم نے کیا کچھ نہ دیا تھا…
تمہیں ہم نے اپنا مقرب بنایا اور تجھے ہم نے جبرائیل و میکائیل سے بھی بڑھ کر ندرت عطا کی مگر…مگر..ابلیس ہمیں جواب چاہیے..۔۔
ابلیس پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے…اور بڑھ بڑھ کر … آواز ِ بلند تمجید بجا لاتا ہے کہ ائے خداوند ! اے حقیقت الحقیقہ !!
اے میری جان کے مالک ! اے میری روح ِ رواں…مجھے کچھ کہنے کا موقعہ دے۔۔۔
خداوند نے اجازت بخشی ۔۔
ابلیس نے فرشتوں کو گم ہونے کا حکم دیا اور خود یزداں کے قریب ہو کر مزید جھکنے لگا۔۔اور اسکی پاکیزگی اور تقدیس بیان کرنے لگا…پھر لجاجت سے گویا ہوا۔۔اے نئی مخلوق کے مالک … میں نے بے شک تیری حکم عدولی کی..بے شک خداوند میں نے ناپختگی ِ ذہن کا اظہار کیا…بے شک!! مگر اے جبروتی ہستیوں کے مالک…تیرے اترے صحائف نے مجھ پر یہ بات عیاں کر رکھی تھی کہ تو بت پرستی اور ماسویٰ سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور تو یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی تجھے جانتے یا مانتے ہوئے بھی،میرے یا جبرائیل ومیکائیل کے سامنے جھکے !! یا اپنے تیں خود کو یا کسی صحیفے کو تجھ سا معبود ِ برحق چاہے۔۔۔ابلیس کہتا چلا گیا۔۔اور پھر کہتا چلا گیا۔۔۔اور جھکتا چلا گیا۔۔
خدا نے کہا مگر ابلیس کیا یہ حکم ِ ثانی بھی میرا نہیں تھا..اور تو جانتا ہے کہ حکم ِ اول سے حکم ِ ثانی اولیٰ ہوتا ہے۔۔۔
اب یزداں نے خوشبو کے ذریعے پکار کر کہا۔،ابلیس تو بھلے اپنے صحاِئف اور شریعت سے بات کرتا ہے مگر کیا انہیں ہم نے نہیں اُتارا..؟ ابلیس سجدے میں پاکی بیان کرنے لگا بے شک تونے ہی..خدا نے کہا مگر ابلیس کیا یہ حکم ِ ثانی بھی میرا نہیں تھا..اور تو جانتا ہے کہ حکم ِ اول سے حکم ِ ثانی اولیٰ ہوتا ہے۔۔۔
ابلیس گویا ہوا…خداوند میں سمجھ نہیں سکا..اے عزتوں والے مجھے اس حقیقت ِ ثانی کے بارے میں سمجھا دے…
خدا نے کہا۔۔۔ ابلیس، مگر اِس سے پہلے جا اور تمام تر جنات و ملائک کے موجودہ صحائف اور شریعتیں خاکستر کر دے۔۔۔
اگلا منظر۔۔
ہزاروں سال بعد ابلیس لوٹا اسکے ساتھ کچھ اور فرشتے اور جنات بھی تھے…وہ سب خدا کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے…اور جھکے رہے
یزداں نے ابلیس کو حیرتوں کے ایک حجاب میں گم کیا اور اُس پر ہزاروں رازوں کو آشکار کر دیا…اُس خلوت نشینی میں تکلم پر تحیر غالب تھا۔۔
ابلیس جب واپس پلٹا تو تمام فرشتے بھی باحضورِ یزداں سر بسجود تھے…اب مکالمہ پھر سے شروع ہوا!!
اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ آج کے دن سے ہمارا رقیب ہے ..اور، ہاں اور ہم اس کی وجہ سے احساس ِ کمتری محسوس کرنے لگے ہیں...میں اِس سے نفرت کرتا ہوں۔۔
ندا آئی اے ابلیس بتلا تو نے ہماری تخلیق کی تحقیر کیوں کی اور کیوں اسے سجدہ نہ کیا…ابلیس نے کھنکارا..گلا صاف کیا اور تلذّذ سے کہنے لگا ۔۔میرا خیال ہے کہ یہ ناقص ہے اور میں کامل ہوں.. یہ اب ہم سب فرشتوں کی بابت تجھے کچھ ذیادہ ہی محبوب ہے حالانکہ ہم نے تیری تقدیس بیان کرنے میں کچھ کمی نہیں کی…اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ آج کے دن سے ہمارا رقیب ہے ..اور، ہاں اور ہم اس کی وجہ سے احساس ِ کمتری محسوس کرنے لگے ہیں…میں اِس سے نفرت کرتا ہوں۔۔
اور اے خدا وند اگر تو مجھے اجازت دے تو میں اسے اسکی فطری کمزوری کے سبب مزید تنزلی میں لے جاوں …اور اسے اندیشہ ِ سودو ضیاں میں گم کر دوں۔۔؟ اور اِسے بھٹکاوں!!
خداوند نے کہا خوب ابلیس تمہیں اجازت ملنی چاہیے…کیا تم کچھ اور کہنا چاہو گے۔۔۔!ا
ابلیس نے جیسے کچھ یاد کیا اور پھر روِ یزداں گویا ہوا،۔تو مجھے مہلت چاہیے اور کچھ نئے اجازت نامے بھی…تاکہ میں بقا کے دن تک… آدم میں بگاڑ پیدا کروں اور اس پر الجھنیں اُتاروں…اسے اسباب میں تھکا دوں ..اُسے بہشت بدر کروں۔۔۔خاک نگر کروں ۔۔تیرے ماسویٰ کے ہتھ کنڈے ڈالوں۔۔خلوت نشیں کروں۔۔ظلمت جبیں کروں …کہتے کہتے رکا اور پھر رخصت چاہی۔۔اطراف سے لعنت ہو، مَردود ہے ،کی آوازیں آنے لگیں۔
اگلا منظر۔۔۔
(جبرئیل نے حکم یزداں سے اُسے اسناد تو تھما دی تھیں مگر اب جبرئیل اکثر حیران رہتا ۔۔اور غمگین بھی ، اُسنے اکثر ابلیس و آدم کو اکٹھے دیکھا اور وہ خدا کے دونوں مقربین کو جانتا تھا)
ایک دن جبرئیل آدم کو ملنے گیا، بہشت کے پوربی کنارے پر آدم مشاہدے میں گم تھا…جبرئیل نے پاؤں چھوئے اور زار زار رونے لگا۔۔
آدم کے چہرے پر ابھی معصومیت کے سوا کچھ اور نہ تھا۔۔جبرئیل سے گویا ہوا، کہو آج کے دن تمہیں کیا غم ہے جبکہ یہ وہ باغ ِ فردوس ہے جہاں کوئی شے کبھی غمگین نہ ہوئی!!
آواز آئی کہ ابلیس ہم چاہتے ہیں کہ تم اس مخلوقِ نو کو نئے اسباقِ حیات سے آگاہی دو...
جبرئیل، آدم کو رازداں جان کر حال گوش گزار کرتا ہے ۔ جنابِ آدم! میں اپنی ملکوتی طاقتوں کے سبب یزداں کے حضور موجود تھا کہ ایک پردہ حیرت سے کچھ سرگوشیاں سنائی دیں…میں نے توجہ دی تو بس اتنا سن سکا…ابلیس کہ رہا تھا کہ خداوند مجھے تیری بڑائی کی قسم ! میں یہ نہیں کر سکتا ۔۔مگر چونکہ تو یہ کہتا ہے کہ میں… آواز آئی کہ ابلیس ہم چاہتے ہیں کہ تم اس مخلوقِ نو کو نئے اسباقِ حیات سے آگاہی دو… ہم اس کی ہمتوں اور صلاحیتوں سے باخبر ہیں مگر اسے خوب پرکھنا چاہتے ہیں…تم اِسے تضاد آشنا کرو گے…تم ہم بیچ حجاب بنو گے… تم اسے بت پرستی سیکھاو گے..خواہش پرستی اور اجسام و صنم پرستی ..
مگر ہم دیکھیں تو آدم کو۔۔اور دیکھو ابلیس تم اپنا کام پوری لگن سے کرنا کہیں کوئی کثر نہ رہ جائے اور ابلیس کے گریہ کی صدا آتی ہے۔۔
آدم تعجب سے جبرئیل کے اندیشے کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اسے کہتا ہے ” اچھا مجھے یاد آیا آج ابلیس مجھے بہشت کے وسط میں لگے اُس آگاہی کے درخت پر لے گیا تھا میں نے اس پر سے چند خوشے کھا لیے ہیں…
جبرئیل اُ نگلیاں چباتے کہتا ہے پھر!!
آدم کہنے لگا ٹھیک ہے مجھے یزداں نے اِسے کھانے سے منع کیا تھا مگر میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی ایسی مضر چیز تھی۔۔آدم پیٹ پر ہاتھ رکھے کہتا ہے میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں اور مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے۔۔میں تم سے پھر ملوں گا…
اگلا منظر۔۔۔
آدم ہوا کے ساتھ موجود ہیں اور اسکی گود میں سر رکھے ہیں۔ آدم نے حوا کی زلفوں کو ہاتھوں سے چھوا اور کہنے لگا کیا بات ہے آج خیریت نہیں لگتی… حوا کہنے لگی ،ہاں آج کچھ..میرا خیال ہے آئیے ذرا قریب آئیے…حوا آدم کے گرد باہیں تنگ کرتی ہے اور آدم کا چہرہ اسکے قریب جاتا ہے…حوا کہتی ہے اے وہ ،جو خداوند کا برگزیدہ ہے ذرا میرے اور قریب آ… تاکہ میں تجھے خود میں چھپا لوں..آدم مزید قریب ہوتے ہیں اور دونوں پر پردہ گرجاتا ہے۔۔۔
حوا کہتی ہے اے وہ ،جو خداوند کا برگزیدہ ہے ذرا میرے اور قریب آ... تاکہ میں تجھے خود میں چھپا لوں..آدم مزید قریب ہوتے ہیں اور دونوں پر پردہ گرجاتا ہے۔۔۔
اگلے روز حوا بہشت میں بیزار بیٹھی آدم سے کہتی ہے جانتے ہو میں چاہتی ہوں کہ ہمارا اپنا گھر ہو،اپنا خاندان ۔۔اپنی اولاد ۔۔اپنے اطوار سب کچھ ہمارا اپناہو…یہاں تک کہ خدا بھی۔۔۔!! مجھے فرشتوں کی یہ تسبیحات کچھ بہتر نہیں لگتیں، میں چاہتی ہوں کہ تم بھی اس بابت کوئی رائے دو …آدم اپنے منہ سے آتی شجر ِ ممنوعہ کی بو میں مد ہوش ہیں اور کہتے ہیں اچھا میں بارگاہ ِ خدا وند میں عرض کرتا ہو کہ جیسا تم کہو ویسا ہی ہو۔۔
آدم کھلے میدان میں ہاتھ پھیلائے کہتے ہیں خداوند میں اور میری ہم نوا چاہتے ہیں کہ ہمیں آزادی دے دی جائے…ہمیں کچھ کرنے کو چاہیے وہ یہاں اسباب چاہتی ہے..اور اے خداوند ہم ابدالآباد جینا چاہتے ہیں…اور خداوند جبرئیل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ…(یزداں کو متوجہ نہ پا کر آدم خاموش ہوجاتا ہے)
سنیے تو یہ کنگن کیسے ہیں اور یہ عِطر حِنا ..یہ زعفران و عنبر... اور میں نے بڑے صندوکچے میں آپ کے لیے گہیوں، دلیہ، پیاز ،ترکاری کاسامان بھی لے لیا ہے۔۔۔
اسی شام ایک فرشتہ آدم سے خدا کا پیغام عرض کرتا ہے۔۔اے آدم! خدا وند تمہیں یہاں سے نکالنے والے ہیں،پس تو اپنے اسباب کی خاطر کچھ سامان لے لے…تاکہ وہ تیرے اور تیری حوا کے لیے کافی ہو…آدم سوچنے لگا کہ آج خداوند نے مجھ سے باضابطہ کلام نہ فرمایا اور نہ ہی مجھے شرفِ ملاقات بخشا.. . مگر ایسا بھی کیا ایسی بھی کیا جلدی…سوچتے سوچتے جب کچھ نہ بن پایا تو بڑبڑانے لگا شاید منشائے ایزدی یہی ہو!! اتنے میں حوا خلل ڈالتی ہے۔۔۔سنیے تو یہ کنگن کیسے ہیں اور یہ عِطر حِنا ..یہ زعفران و عنبر… اور میں نے بڑے صندوکچے میں آپ کے لیے گہیوں، دلیہ، پیاز ،ترکاری کاسامان بھی لے لیا ہے۔۔۔
آپ بتلائیں تو کچھ اور بھی رکھ لوں کیا خبر خداوند ہمیں کہاں بھیجنے والے ہیں اور ہم کب تک وہاں رہیں گے…آدم اٹھا اور بہشت کے مرکزی دائرے میں جا پہنچا یہاں وہ اسی شجر ِ معرفت تلے آیا…( یہ سچ تھا کہ آج شام ہو رہی تھی مگر ایسی بھی نہیں کہ رونقیں مانند پڑ جائیں…) آدم نے اپنی دانست میں خوب چن کر چند پھلوں کو اپنا لیا اور قبا میں چھپائے حوا کے پاس لوٹا۔۔فرشتوں کی انواری قطاریں اور تسبیحات سن کر دل ہی دل میں کہنے لگا آج کا دن بھی کتنا عجیب ہے کہ آج میں خداوند کے دربار میں حاضر نہ ہوسکا….وہ اسی غرض و غایت کو تلاش کرتا حوا تک پہنچا تو ابلیس بھی ساتھ ہو لیا…
آدم ،حوا اور ابلیس۔۔۔
حوا آدم اور ابلیس ِ محترم کو تمام ضروری تیاری دکھانے لگی…ابلیس ِ معزز کی جبین انوارات سے پُر تھی… آدم خاموش اور گم سم
اتنے میں حوا کہنے لگی…کیا ابلیس ِ محترم آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے …یہاں بہشت سے …ہم تو جانے والے ہیں مگر آپ کے بغیر!!
حوا نے آدم سےکہا، اے انسان ِ قدیم!آپ خداوند سے التجا کریں کہ ہمیں ابلیس ِ محترم کو ساتھ لے جانے دیا جائے۔۔تاکہ یہ ہماری رہبری کے فرائض سر انجام دیں سکیں
ابلیس نے انکار تو کیا مگر ششوپنج میں …حوا نے آدم سےکہا، اے انسان ِ قدیم!آپ خداوند سے التجا کریں کہ ہمیں ابلیس ِ محترم کو ساتھ لے جانے دیا جائے۔۔تاکہ یہ ہماری رہبری کے فرائض سر انجام دیں سکیں اور بے شک یہ ہم سے ذیادہ علم رکھنے والے ہیں۔۔۔آدم خاموش ہے ۔۔۔اور انکار نہیں کرتا
نئے دن خداوند آدم کو پکارتا ہے …آدم دربار ِیزداں میں مسجود تمجید بیان کرتا ہے …خدا اسے بہشت فروزاں سے نکل جانے کا حکم دیتے ہیں مگر اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم اپنے ساتھ کچھ سامان ِ حیات بھی لیے چلو…اور یہ کہ تمہاری اور حوا کی بات منظور کرلی گئی ہے…تمہیں راحت بدر کیا جاتا ہے، کچھ اور چاہتے ہو..!
آدم کو یہ نیا سفر عجیب سا لگ رہا تھا وہ اسے سزا یا جزا سمجھنے سے یکسر قاصر تھا..وہ چاہ کر بھی کچھ ناں کہہ پایا…اتنے میں حوا بول پڑی ، اے خداۓ قدوس! کیا ہم اس سفر پر ….مالکِ بریں کے سامنے گستاخی اور یوں بے محال بولنا..فرشتوں میں چہ منگویاں شروع ہوگئیں۔۔
ہم نہ کہتے تھے یہ بے ادب و گستاخ ہے..یہ تو سرشتِ ابلیس تھی، مگر آدم اور حوا کو جانے کیا ہوا…یہ گمراہی ہے…اب خدا کا عتاب دیکھنا…خداوند معاف کرے آمین…
اُدھر بڑی نشستوں پر دائیں جانب مسند پر جبرائیل و میکائیل ہیں..ادھر اسرافیل و عزرائیل تخت پر مجلوہ ہیں خداوند کی تجلی تاباں ہے…حوا پھر گویا ہوئی ، ہم ابلیس ِ محترم کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمیں آپ کا قرب دے سکیں اور جیسا کہ وہ نہایت پاکباز اور قابلِ تعریف ہیں…
جبریل مسند پر پیچ و تاب کھا رہا تھا التجا کرنے لگا…اے عزمتوں والے نہیں ، ہرگز نہیں!! اجازت ہو تو میں انکے ساتھ چلوں… مگر میرا خیال ہے کہ ابلیس ملعون ہے اور اُسے اجازت نہیں ملنی چاہیے…اسنے فرشتوں اور جنات کی طرف دیکھا سب نے اسکی حمایت کی…
تمہیں اِن خلتوں سے دور کیا جاتا ہے...تم سے مختاریت چھین لی جاتی ہے ...
صدا آتی ہے، اے نورِ جبرئیل اے فرمانبردار ملک جا تو ان کے ساتھ ضرور جا…مگر اے نار ِ ابلیس اے سرکشی کے علمبردار تو بھی آدم اور حوا کے ساتھ جا…صدا آتی ہے، آدم و حوا جاو…اے مخلوقِ خاک جاؤ..تمہیں اِن خلتوں سے دور کیا جاتا ہے…تم سے مختاریت چھین لی جاتی ہے …
جاو اور اُس شجر ِ وجدان کے پھل کو چھونے ، کھانے کی پاداش میں ،تمہیں، تمہاری فطرت سے دور کیا جاتا ہے…
پھر جب کہ تم پلٹو گے…..!
حوا زمین پر بہت خوش تھی …ا ب اسنے اپنا گھر بھی بنا لیا تھا اور اسکی آرائش بھی ہونے لگی تھی…اُسے آدم سے اب کچھ خاص رغبت بھی نہ رہی تھی…
دن بھر جبرئیل آدم کو سمجھاتا بُھجاتا اور اسے ماضی کے اسباق دہراتا۔ آدم دیوانگی میں قبا سے چند دانے نکالے کھا لیتا اور متعجب نگاہوں سے افلاک دیکھتا…شب ہوتے ہی ابلیس آن ٹپکتا اور دونوں کو آنے والے دنوں کی پیشین گوئیاں کرتا.. اُ نہیں جنت ِ ثانی پر حکمرانی کے خواب دکھاتا…وہ آپس میں لپٹ جاتے اور نار و نور ایک ہو جاتے…
تو یزداں مسکرا رہا تھا...
ایک روز انہوں عرش کی طرف دیکھا تو یزداں مسکرا رہا تھا…اور اسکا تبسم نہایت حسیں تھا….ایسا تبسم ،جیسا آدم کا اُسی شجر معرفت کو چکھتے ہوا تھا..بالکل ویسا یزداں مسکرا رہا تھا۔۔۔چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور شرما کے آنکھیں پھر لیں۔۔۔۔۔!!