Skip to content

Historicism and Its Roots in Turkish Academia (Trans.)

Ankara Palas Meetings | Quality Recording | 30 October 2018 – Mustafa Ozturk

ترجمہ و حواشی : دُکتور عبدالباسط ظفر
جامعہ انقرہ، شعبہ الہیٰات ، جمہوریہ ترکیہ ۲۰۱۸

وجہِ تسمیہ
یہ ترجمہ شدہ مضمون پروفیسر مصطفیٰ اُوزترک کا بَرزبان ترکی دارالحکومت انقرہ کی ایک علمی مجلس میں کی ہوئی گفتگو سے ماخوذ ہے۔ شہرِ انقرہ کے تاریخی حصے اُولؔوس میں انقرہ پالؔیس کے نام سے ایک تاریخی عمارت واقع ہے، جس میں حکومتی اداریاتی تشکیل بڑے اذہان اور نابغوں کو مدعو کرتی ہے ۔ایک روز میرے ایک استادِ گرامی جناب یٰس مَرال صاحب نے مجھے فرمایا کہ وہاں پروفیسر مصطفی اوُز ترک آ رہے ہیں، جمہوریہ ترکیہ میں پروفیسر حسین آؔتائی کے بعد علم و حکمت کا بہت بڑا نام ہے ۔کیا آپ انہیں جانتے ہیں ؟ آپ ایسا کریں وہاں ضرور جائیں اور اُ نہیں بھی سنیں ! مترجم نے اُن کا بیان سنا اور بَر زبان ِاردو یہاں مِن و عن نقل کرنے کی سعی بھی کی اِس خواہش کے ساتھ کہ اہل زبان اِیسی محافل سے سوچ میں وسعت ، اور علم و فکر میں رغبت پائیں۔ وَاللہُ اَعلَمُ بِالصَّواب۔

کلیدی الفاظ: اسلام ، جمہوریہ ترکیہ، قرآن ، علم التشریح ، تاریخیت
Keywords: Islam, Turkey, Quran, Hermeneutics, Historicism
۔ ۔ ۔ ۔

1

سب کو سلام اور خوش آمدید!
میزبان نے اسپیکر سنبھالتے ہوئے کہا۔ علم القرآن پر گفتگو کرتے ہوئے دو بنیادی رحجان اور روّیے ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں ۔ اِن دو بنیادی اسکول آف تھاٹ میں سے ایک، جو وحی ِخدا کو زمان و مکان سے منزّہ ایک ابدی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے، اِن کے نزدیک قرآنِ مبین کی ہر آیت خواہ وہ محکم ہے یا متشابہ، آج بھی اور آج سے ایک لاکھ سال بعد کے انسانوں کے لیے بھی، ہر وقت اور جگہ پر پریکٹس کیے جانے کا دفاع کرنے والا universalismاور دوسری طرف ہے historicism۔ جو اِس آفاقی روِش کے متخالف وحیِ خدا کو عرب سماج و رواج اور ثقافت میں اترنے والی ایک تاریخی حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے اور تمام تر کلامِ الہیٰ کو آج اور آنے والے کل میں مکمل طور پر عملی زندگی میں لانے پر معترض ہے ۔ آج کی اِس شام اِ س دوسری فکر یعنی historicism کے پیرائے میں ہم آنے والے معزز مہمان کو سنیں گے۔
اپنی بات کو تھوڑا سا ٹھوس انداز میں بیان کروں تو اِس اکیسویں صدی کے آخر میں امریکی خلائی ادارہ ناسؔا ہزاروں افراد کو خلا میں منتقل کرنے اور وہاں رہائش اختیار کروانے کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے ، ایسے خلائی مراکز ہم دیکھ تو نہیں سکیں گے البتہ ہمارے بعد کی ہماری نسل اور اُن کی نسلیں، یہ نئے منصوبے عملی طور پر دیکھ سکیں گی ، خلائے بسیط میں تیرنے والے یہ دیو ہیکل بیضوی شہر ، خواتین و حضرات !! اپنی چشم تصور سے دیکھیے کہ ہزاروں لاکھوں لوگ اُن میں رہ رہے ہیں ، سوال یہ اٹھتا ہے کہ اِس زمین پر غلاموں کا تصور ، غلاموں کی آزادی، لونڈیاں رکھنا، عورت کے وراثت میں حقوق، یہاں تک کہ سورة النسا میں عورت کو مارنے پیٹنے کی گنجائش دینے والی آیت 34 ، چور کے ہاتھ کاٹ دینے والی نصوص ، یہ سب کیسے ہماری روز مرہ زندگی میں عمل میں لائی جا سکتی ہے یا آیا کہ لائی جانی چاہیں! اور جیسا کہ ہم سب دیکھ سکتے ہیں کہ ایسی روایت سے ہم فی زمانہ بھی دور ہو چکے ہیں ۔ تو اِس موضوع پر ہمارے درمیان موجود ہیں ہم سب کے محترم جناب پروفیسر مصطفیٰ اوُز ترک!

2

پروفیسر مصطفیٰ اُوزترک: بسم اللہ کہہ کر آغاز کرنا چاہتا ہوں ، محترم حاضرین مجلس!
آپ سب کو حرمت اور عزت کے لائق سمجھتا ہوں، بہت ہی قابلِ احترام اور چیدہ چیدہ انسانوں کی اِس محفل میں موجود ہوں۔ یُوں تو کبھی بات کرتے ہوئے میرا دل ایسے نہیں دھڑکا، جیسے آج یہاں خود کو آپ سب کے سامنے بات کرتے ہوئے ہیجان سے محسوس کر رہا ہوں ۔ خدا نے چاہا تو میں اپنی بات کو حُسن اُسلوب سے آپ تک پہنچا سکوں گا ۔ میرا نام تاریخ کی روُ سے متن اور نصوص کا مطالعہ کرنے والوں میں لیا جاتا ہے ، یہ اصطلاح historicism ایک ناپسندیدہ اصطلا ح سمجھی جاتی ہے یا تو اِس پر لعنت بھیجی جاتی ہے یا پھر بہت ہی بڑھا چڑھاکر بیان کیا جاتا ہے ۔ دونوں حالتوں کے درمیان ایک معتدل روّیہ ابھی تک میرے دیکھنے میں نہیں آیا۔ میرے لیے لوگوں کے دلوں میں اُبھرنے والے جذبات بھی اِسی طرح انتہا پسند ہیں یا تو شدید محبت کریں گے یا شدید نفرت ، میں چاہتا ہوں کہ کوئی درمیان راہ اختیار کر لی جائے .. خیر، ابھی میں چاہتا ہوں کہ پہلے تو آپ کو ملکِ ترکیہ میں اِس رویے کا مختصر پسِ منظر بتاوں اور اُس کے بعد میں آپ کو "اپنی” تاریخی روایت کی وضاحت کروں کیوں کہ ہر کسی کی اتفاق کردہ ایک ” historicism ” نہیں ہے۔ کوئی اِس اصطلاح سے کیا مراد لیتا ہے، کیسے سمجھتا ہے، یہ میں نہیں جان سکتا لیکن میرے ساتھ اِس روایت کو سمجھنے والا میرا ایک ہم فکر دوست ضرور ہے "پروفیسر عمر اُوز سَوئے ” میں اُن کی طرف سے بھی آپ جملہ حاضرین کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ کل میں اُن کے پاس فرینکفرؔٹ جا رہا ہوں۔، آپ خود جامع انقرہ کے شعبہ الاہیات میں ہمارے استاد تھے ۔ ملکِ ترکیہ میں سب سے بہتر انداز میں historicism کو سمجھنے والا اور اِس پر سنجیدہ اور جامع لکھنے والا عالم، میرے خیال میں وہی تھے۔ اگرچہ زیادہ نہ لکھا مگر چار پانچ لکھے مقالات سے یوں ہی سمجھیں کہ اُنہوں نے اِس معمہ کا سِرا تھام کر ہم تک پہنچایا ہے ، بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ میں نے اِس تاریخیت کی روایت کو اپنی اولاد بنا لیا ہے، تبني کر لیا ہے، تو کسی طور غیر مناسب نہ ہو گا۔

3


ملکِ ترکیہ میں تاریخیت کی روایت پاکستانی عالم اور مذہبی اسکالر جناب ملک فضل الرحمٰن صاحب(1988) کے انقرہ الاہیات کے ساتھ ارتباط کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی۔ دبستانِ انقرہ کی طرف سے اُن کی کتابوں کے تراجم اور اُن پر جرّح کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخیت کی روایت کا باقائدہ آغاز ہوا۔ اِس روایت کا زیادہ جوش و خروش سن نوّے کے وسط میں دیکھنے میں آیا فقط اُن گرما گرم مباحث کو کوئی خوبصورت انجام، کوئی حتمی نتیجہ تک نہیں دیا گیا ، بلکہ اِس فکری روایت کو فوراً ایک نسب نامہ دینے کی کوشش کی گئی۔ اور جیسا کہ ہمارے یہاں ہوتا رہا ہے کہ نسب نامہ مغرب سے توفیض کیا جاتا ہے یعنی کسی نے کہا کہ گاڈامر(Gadamer) اِس کا بانی ہے ۔ کارل پاؔپر کی کتاب The Poverty of Historicism سے قرآن کی تاریخی حیثیت پر غیر سنجیدہ اور مغلق قسم کے ریفرنس بھی دیے گئے ۔ حالانکہ کارل پاپر کی کہی کا دور دور تک بھی قرآن سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ دوسری طرف فضل الر حمٰن صاحب(متوفی:۱۹۸۸) کی ایک کتاب کے آغاز میں قرآن کی تاریخی حیثیت کے ضمن میں ایک نئی متھاڈالوجی ، ایک نئی طرزِ فکر کی پیشکش کی گئی ہے ۔ مختصر اً اُن کا کہا کچھ یُوں ہے کہ ہم آج موجود اِس سن دو ہزار اٹھارہ کے جمہوریہ ترکیہ سے پہلے، نزولِ وحی کے زمانے میں چلے جائیں ،وہاں کی انتھراپالوجی اور سوشیالوجی کے ساتھ ساتھ ، آیات کے زمانی و مکانی نزول کو اُس زندہ معاشرے کے اندر ٹھیک طرح سمجھ لیں ۔ مثال کے طور پر اُس دور میں ایک آیت اترتی ہے ،کس ماحول میں، کن شرائط کے تحت ، خدا ایک حکم کو کس صورتِ حال میں نازل کرتا ہے ، اُس سبب اور علت کو جان کر اور اُن علائق سے اپنے لیے ایک راہ نکال کر ، اُس حکم کے پسِ پردہ وجوہ اور اُس کی غایت کو سمجھ کر ،اُس کی تثبیت میں اُس مقصدِ الہی کو ساتھ لیے، اپنے آج کے دور میں واپس آیا جائے اور اُس مقصد کو زندگی میں پریکٹس کر لیا جائے ۔ اُس مقصدِ الہیٰ کو آج کے اپنے زمانے سے حالتِ انطباق میں لایا جائے ۔

4


جناب فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی خطاب یا پیغام پہلے پہل موضوعی ہو سکتا ہے ، لیکن دوسری مرتبہ دُہرائے جانے پر یعنی اُس پیغام کی اماج کو جان جانے پر، فی زمانہ ہمارے مسائل کو اُس پیغام کے ساتھ تطبیق کے نتیجہ میں خطا کا احتمال بھی برابر میں موجود ہے یعنی فضل الرحمٰن سو فیصد ایک موضوعیت کا دعوی بھی نہیں کرتے۔ چلیں ایسا ہے، تو اُن کے کہے میں مسئلہ کیا ہے ؟ جی تو جناب! مسئلہ یہاں نکلتا ہے کہ ہماری روایت میں” نص کی اِیضاح میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے ” یعنی اگر ایک موضوع پر قرآن نے وضاحتِ عامہ کر دی ہے تو اُس موضوع پر آپ اجتہاد نہیں کر سکتے ۔ اور بس! یعنی قرآن کی آیات کا لفظی ، حرفی اور لِٹررَل جو بھی معنی ٰہے آپ کو وہ ہوبہو کہنا ہے !
کیا تاریخ ِ اسلامی میں ایسا کیا گیا ہے، تو وہ بحثِ دیگر ہے ۔
قرآن پاک کی بالائے تاریخ روِش ایسی ہے ۔ یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ تاریخیت کے مخالف فکری روّیے کا نام آفاقیت(universalism) نہیں بلکہ بالائے تاریخیت (ahistoricism)ہے ۔ فضل الرحمٰن کی طرف سے علمی اور تحقیقی میدان میں آنے والی اِس فکر سے نئی ہلچل شروع ہوئی کہ قرآن کے کہے پر یعنی آیاتِ محکم پر بھی اجتہاد کر لیں اور وہ اِس موضوع پر بار بار حضرت عمرؓ کا ریفرنس دیتے رہےہیں ۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں کیے کچھ ایسے اقدامات اور اجتہاد ہیں کہ آیتِ قرآن کا ایک موضوع پر صریح حکم موجود ہونے کے باوجود ، مثلاً آیت إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ … (التوبہ 60) میں آیت کہتی ہے یعنی زکات اِن اِن سماجی طباقات میں تقسیم کی جائے گی۔ آیت بالکل صریح انداز میں حکم دے رہی ہے کہ فلاں فلاں لوگوں میں ایک "مؤلف القلوب” بھی ہیں، وہ طبقہ جن کے دلوں کو حرارتِ ایمان سے گرمانے کے لیے اُنہیں بھی مال ملک میں سے کچھ حصہ دیا جانا چاہیے اور یہ گروہ پیغمبر ﷺ کے وصال سے پہلے تک زکات میں سے اپنا حصہ لیتا رہا ۔

5

حضرت ابوبکرؓ بھی اپنے مختصر دورِ خلافت میں رسالتِ مآب کی قلم سے نکلنے والے حکم کو بَرطرف نہ کیے ، مؤلف القلوب میں گنے جانے والی ایک ذات عکرہ بن حابث، دور ابوبکرؓ میں اُن کے حضور گئی۔ حضرت ابوبکرؓ ، اجتہادی روش کی بجائے پیغمبر کی حیات مبارکہ کی ہر ممکن تقلید کرتے ہیں ، چنانچہ دستاویز تیار کی گئی ۔ مگر یہاں یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ جنابِ ابوبکرؓ اور عمر الفاروقؓ کے درمیان فکری افہام و تفہیم کی موجودگی بھی ہم بنو سعیدہ کے وقت سے جانتے ہیں ۔ جناب ابوبکرؓ نے کہا کہ جائیے اورذرا عمرؓ کی رائے بھی لے لیجیے ، اُن کی رائے بھی لے لی جائے ،جناب عمؓر وہ تحریری اجازت نامہ پکڑتے ہیں اور دو حصوں میں تقسیم دیتے ہی ۔ اب آیت وہاں موجود ہونے کے باوجود کونسی جرات کے ساتھ حضرت عؓمر کس جسارت کے ساتھ ، اللہ تعالیٰ کے مؤلف القلوب کو حصہ دینے کے حکم کے باوجود ، "میں نہیں دیتا” کہہ سکتے ہیں۔ فضل الرحمٰن ایسے کئی ایک حاشیے مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں اور یُوں ملک ِ ترکیہ میں تاریخیت(historicism ) کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں ۔ مگر یہ مباحثے ہمیشہ قانونی اور معاملاتی احکام پر کیے جاتے رہے مثلاً چوری چکاری پر ہاتھ کاٹنا ، عورت کے ورثے اور اُس کی گواہی وغیرہ جیسے موضوعات پر ۔ جبکہ میری ذاتی "تاریخیت” اِن چند ایک موضوعات سے بالا قرآن کی جامع اور مکمل تاریخیت ہے ۔ ورنہ نیم تاریخی روش اور نیم آفاقی فکر میرے نزدیک ممکن نہیں ہے ۔
تاریخیت میں ظرف اور مظروف کی ایک تقسیم ہے ، ظرف وہ لفافہ ہے جس کے اندر خط ڈالا جاتا ہے ، اُس خالی لفافے کے اندر موجود بھی ایک چیز ہے ،مظروف کہ جس میں پیغام ہے ۔ تاریخیت کے رحجان سے دیکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ لفافہ اور خط ایک جتنی حیثیت کے حامل نہیں ہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ بالائے تاریخ اپنا پیغام ،تاریخ کے لفافے میں ڈال کر ہمیں دیتا ہے ۔ اِس طرح دیکھا جائے تو میری تاریخیت کسی بھی لحاظ سے کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ ہماری تمام تر روایت میں بار بارصراحت کے ساتھ کہی جانے والی چیز ہے ۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے موضوع کو جاری رکھنے سے پہلے آپ کی خدمت میں ہمارے کلاسک تفسیری متائن سے چند ایک پیرافراگ پڑھنا چاہوں گا ۔ ایسے میں میری اِس فکر پر مجھے برا کہنے والے یہ دیکھ لیں گے کہ صحابہِ رسول کے زمانے میں بھی یہی فکری روِ ش کار فرما رہی ہے ۔
استعذُ بالله .. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ۔۔(النور 58) آیت مبارکہ کی تفسیر میں پڑھنے جا رہا ہوں(مختصراً آیتِ کریمہ یہ کہہ رہی ہے کہ تین ایسے وقت ہیں جن میں ا ٓ پ کی محرمیت کھلی ہو سکتی ہے، سو آپ کے بچے اور غلام داخل ہونے سے پہلے آپ سے اجازت طلب کریں، اِن تین أوقات میں سے ایک دوپہر کی گرمی میں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں اہل عرب کے یہاں قیلولہ کی عادت ہے ، جس میں آپ کا ستر کھلا ہو سکتا ہے ، صبح وقت فجر اور بعد از عشا )۔ شہرِ کوفہ سے ایک گروہ آتا ہے اور حضرت ابن عباسؓ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ، آپ علمِ تفسیر میں أصحابِ رسول میں حجت سمجھتے جاتے ہیں؛ قرطبی کی الجامع الأحكام القرآن نامی کتاب سے ابھی میں پڑھتا ہوں آپ بھی سنیے ” یا ابن عباس کیف ترا فی هذه الآیة التی اُمرنا فيها بما اُمرنا ولا یعملُ بها احد! یعنی جنابِ ابن عباس آپ کیا فرمائیں گے کہ یہ آیتِ کریمہ ہمارے درمیان موجود ہے اور اِس میں اللہ کا حکم بھی موجود ہے اور آپ آئیں دیکھیں کہ کوئی ایک بھی (کوفہ میں) اِس پر عمل پیرا نہیں .. ولا یعملُ بها احد! یعنی ابھی دورِ صحابہ میں ہی ہیں اور اِس آیت پر عمل نہیں ہو رہا!
ابن عباسؓ کا دیا گیا جواب ہے "قد ذهبَ حُکمها” یعنی اِس آیت کا حکم اٹھ چکا ہے ۔

6

اِس کا پس منظر کچھ یُوں ہے کہ مسلمانوں کے مدینہ ہجرت کے بعد اُن کے گھروں میں دروازے، کھڑکیاں ، مَحرم یعنی گھر کے اندرونی بیرونی حصوں میں تقسیم کرنے کا امکان نہیں تھا ۔ یعنی کوئی بھی کسی کی خواب گاہ میں بغیر کسی دستک کے گھس سکتا تھا ایسے امکان نہ ہونے کے سبب سے اِس آیت کریمہ کا نزول ہوا، مگر اب اللہ نے مسلمانوں کے اِمکان بڑھا دیے ، اب دروازے ہیں، کھڑکیاں ہیں ، کمروں کے درمیان تقسیم ہیں ، تالے ہیں چابیاں ہیں چنانچہ "… فلم يرأ احداً يعمل ذٰلك بعده” ابن عباس ؓ فرماتے ہیں میں نے بھی ابھی تک کوئی شخص نہیں دیکھا جو اِس آیت پر عمل کرتا ہو۔ حاضرین اِکرام یہ دور صحابہ ہے، ابھی ہم سن دو ہزار اٹھارہ میں نہیں آئے ! اب آپ ذرا ، اپنے آپ پر نگاہ ڈالیں تین اوقات پر آپ سے اجازت طلب کر کے النور سورة کی آیت نمبر اٹھاون کی روشنی میں کتنی بار عمل کی گئی ہے ؟
یا پھر کتنی بار ایسی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ اِس پر عمل کیا جائے !
دیکھیں تاریخیت اِس آیتِ کریمہ کو اُس دور کی عرب ذہنیت اور سوشیالوجی سے مخصوص ہونے کا اندراج کرتی ہے۔ آج کے زمانے میں ہماری معاشرت میں قیاس بناتے، وقت ہمارے پاس کوئی مَناعَت نہیں ہے،یعنی اِس حکم پر عمل کرنے کے لیے سبب اور علت ہی موجود نہیں ہیں ۔ آپ کے اپارٹمنٹس میں بغیر بتائے ، دستک دیے کسی کے اندر آ جانے کا احتمال ہی نہیں ہے، کہیں تالہ توڑ کر یا دروازہ توڑ کر ہی کوئی آپ کے مَحرمیت میں ، اوقات خاص میں داخل ہو سکتا ہے ۔ تو آپ کیوں اِس پر عمل نہیں کرتے ؟ تاریخیت یہ بات نہیں پوچھتی، نہ ہی یہ کہتی ہے کہ اِلی یوم القیامہ اب اِس پر عمل کیا ہی نہیں جائے گا ۔ صرف ہمارے موجود ہ وقت اور حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بات کرتی ہے ۔ میرے بعد آنے والی نسلوں اور زمانوں میں کیا ہو گا، میں نہیں جانتا مگر آج یہ حکم”ملغأ” ہےاِس پر عمل نہیں کیا جا سکتا ، ایسا کہتے ہوئے میں تاقیامت کوئی حکم صادر نہیں کر رہا۔

7


اِس ضمن میں دوسری مثال دیتا چلوں اِس مسئلہِ مؤلف قلوب کے ضمن میں امام ابو منصور الماتریدی اپنی تاویلات القرآن میں حضرت عمرؓ کا قصہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں "و في لآية دلالة جوازِ نسخِ بالاجتهادِ لاِرتفائي معني الذي به كان” اِس آیتِ کریمہ کی بنیاد ،سبب بننے والی عِلت کے اٹھ جانے کی وجہ سے ، عمل کے نسخ ہونے پر دلیل موجود ہے۔ کیا مطلب ہوا بھلا اِس بات کا کہ اجتہاد کے ساتھ نسخ ! یعنی ایک شخص اجتہادی روّیے سے کوئی کام کرتا ہے ،کسی تصرف میں آیت کے اُس وقت کے معنی ، حکم کو اپنے عمل سے نسخ کر سکتا ہے یہ کہنے والے ہیں امام ماتریدی ، جن کی تاریخ ِوفات ہے 330 ہجری اور 944 عیسوی ہے، یہ ہمارے مذہب کے امام ہیں ! اب کیا اِن کا کہا درست ہے یا غلط ؟
مطلب کہا جاتا ہے ناں کہ تاریخیت نئی علمی تحریک ہے ، مغرب سے ہم پر مسلط ہوئی ہے، یا پھر وہاں کی روایت کا ہم پر اطلاق ہے ، ایسے الزام دینے والوں کے لیے کہہ رہا ہوں کہ دیکھیے ایک اور مقام بتاتا چلوں امام ماتریدی سے سورت ممتحنہ کی دسویں آیت ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ… معنی ائے مومنو! اگر مکہ سے عورتیں تمہارے پاس مدینہ میں آئیں اُن کو "فامتحنوهُن” اچھی طرح امتحان سے گزارو، یعنی جاسوس تو نہیں ہیں کہیں ،کیا واقعی ایمان قبول کرنے کے بعد آئیں ہیں .. یعنی اچھی طرح تفتیش کر لیں اگر وہ ٹیسٹ سے گزر جائیں تو انہیں قبول کریں اور اپنے نکاح میں لے لیں ، اور اگر ایسی ایک عورت، وہاں مکہ میں کسی کے ساتھ شادی شدہ ہوتے ہوئے آپ کے پاس آئے تو اُس کا اپنے مکہ والے مشرک خاوند سے نکاح تلف ہو جائے گا، آپ ایسی عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں ، لیکن شادی کے لیے اُس کے مشرک خاوند کا ادا کردہ مہر اُس کو ادا کیا جائے ، پیسے اُس شخص کو بھیج دیں ۔ یہ عمل اِس کے مکمل الٹ بھی ہو سکتا ہے یعنی آپ بھی مشرک ہوکر اہل مکہ کے پاس جانے والی عورت کے وہاں کے مشرک شوہر سے اپنے مہر کا متبادل مانگ لیں ۔ امام ماتریدی اِس آیتِ کریمہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "فيه دليل علي أن الكتاب يجوزُ ان ينسخِ حكمهُ بالتركِ الناس العمل” بہت غور طلب جملہ ہے۔ یہاں انسانوں نے ایک آیتِ کریمہ کا حکم اپنے عمل کے ترک کرنے ساتھ، اُس آیتِ کریمہ کے حکم کے بھی متروک ہونے کو دلیل پیدا کر دی ہے ۔ غور فرمائیں کہ یہ حاضرینِ محفل کسی ایک آیت کے مطابق عمل نہیں کر رہے ہیں ، اگر عمل نہیں کر رہے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ حکم کی عملیت اٹھ چکی ہے ، اتنی سی بات ہے ۔ یہاں امام ماتریدی اپنے پاس سے کوئی بات نہیں بنا رہے بلکہ پہلے سے موجود ، ہو چکے واقعے کے اثبات میں جو ہو چکا اُسے بیان کر رہے ہیں ۔

8

میں قرآن کی بالائے تاریخ تاویل کو نامناسب سمجھتا ہوں۔ اِسے عملی زندگی میں کسی طور مفید ہوتا نہیں دیکھ رہا اور مجھے یہ جاننے کا بہت تجسس ہے کہ یہ علما کیسے اپنے رویے بناتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ ملعانة(Mülaane)(الِ عمران 61)، ظهار(zihar) ، الایلاء (İlâ’) یا پھر مندرجہ بالا یہی تین اوقات مخصوصہ میں قائم حرمیت کا پاس کرتے ہیں ؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر قرآن میں اترے تمام حکم ابدی ہیں تو یہ ایسا سب کچھ کیوں نہیں کرتے؟ میں تو تاریخی حیثیت کی رو سے چلتا ہوں لہذا میرے یہ مسئلہ نہیں ہے مگر کیا موجود حاضرین میں سے کسی کو افسوس نہیں ہوتا کہ عمر پوری گزر گئی کبھی اپنی بیگم کو الایلاء یا ظهار (تم پر لعنت ہو، یا تمہارے جسم کا فلاں حصہ میری ماں سے ملتا ہے) نہیں کر پایا۔!!
خیر، میں جاری رکھتا ہوں ، ایک دو اور مثالوں کے بعد نئی بحث میں داخل ہو جاؤں گا۔ فضل الرحمٰن تاریخیت کے مسئلہ پر بحث میں مغرب میں جاری ہرمینوٹک اَپروچ (hermeneutics)پر بات کرتے ہیں ، یہ قطبین پر مشتمل دو فکری رحجانات پر قائم ہے ، گو اِن اختلافات کا قرآن و حدیث سے دور قریب کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اختلافات اِس بات پر ہیں؛
(۱) ایک متن اور ایک اُس کا لکھاری ہے ، وہ متن اپنے لکھاری کے جدا ہوتے ہوئے ، کیا اپنے لکھاری کی نیت کو بعینہ بیان کر سکتا ہے ؟ یعنی لکھاری کا مدعا و مراد کیا کسی تیسرے شخص کی طرف سے محض متن سے سلجھائی جا سکتی ہے ؟ صرف اُس تحریر سے کیا قاری لکھاری کے ذہن میں اتر سکتا ہے ؟ Emilio Betti کہتا ہے کہ ایک تاویل کرنے والا کسی بھی متن کو بالکل لکھاری کی نیت میں ہونے کی طرح ہوبہو سمجھ سکتا ہے، جان سکتا ہے ۔ یعنی لکھاری کے ذہن کو پڑھ سکتا ہے۔
دوسری طرف Hans-Georg Gadamer نے کہا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے ۔ کیوں کہ تاریخ کی اپنی ایک فعالیت ہوتی ہے ‘historically-effected consciousness’ (wirkungsgeschichtliches Bewußtsein) یعنی ہماری اپنی تاریخی حدود میں اُس کے تعصب میں رہتے ہوئے ایک درست پاک صاف معنی تک پہنچنا ناممکن ہے ۔ اِس اختلاف میں فضل الرحمن تھوڑا سا پہلی روایت کے قریب کھڑے نظر آتے ہیں یعنی اُن کے مطابق ایسا ہے کہ وہ معروضی تاویل کو جاننا ممکن سمجھتے ہیں ۔مطلق معروضیت نہیں کہہ رہا میں غور کیجیے ، یعنی اُن کے خیال میں لکھاری کی عدم موجودگی میں بھی متن کو پڑھتے ہوئے اُس کی غائة اور حقیقی معنی تک پہنچنا ممکن ہے ۔

9

ہماری روایت میں بھی یہی ہے محترم حاضرین! ذرا اپنی تفاسیر اٹھا کر دیکھیں، اُن میں آیتِ کریمہ کی تفسیر ایسے شروع ہوتی ہے ، "ائے ” کے ساتھ شروع ہونے والا جملہ ایک تفسیری جملہ ہے ، "کأنه یقول “ گویا خدا یہ کہہ رہا ہے ، معناهُ یعنی خدا کا قصد یہ ہے ، مغزاهُ وغیر ہ اِن کا مطلب بنتا ہے کہ”اللہ کہہ رہا ہے ” اور ایسا کہنے کا مطلب یہی بنتا ہے کہ خدا کے کہے کو سمجھنا بشری امکان میں ہے ۔ ہماری تفسیری روایت اِس بات کو مان چکی ہے جیسا کہ اجتہاد کے اِمکان کو ماننا بھی اِسی کو ظاہر کرتا ہے ۔ خدا کی کسی آیت سے مراد کوئی سِر و اسرار ، کوئی راز و نیاز کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، انسان اُس مرادِالہیٰ کو جان سکتا ہے ۔ جاننے کے اِس عمل میں غلطی و کوتاہی بھی کرسکتا ہے اِسی واسطے ہمارے علما نے خدا کی مراد کو سمجھنے لکھنے کے بعد عجز اعتراف میں لکھا "واللهُ علم بمراده، والله أعلم بالثواب”یہی سب سے بہتر خدا ہی جانتا ہے ۔ مگر ہم اِس سے سمجھ سکتے ہیں کہ لکھاری کی نیت کو ہماری روایت میں جاننا ، سمجھنا یا اُس کا ادراک کر سکنا ممکن سمجھا گیا ہے ۔
جناب فضل الرحمن کے اِس عمل پر اُنہیں کہنا کہ تم کون ہوتے ہو Betti کے پہلو میں خود کو کھڑا کرنے والے ، ہمارے آفاقیت کو تسلیم کرنے والوں کو Gadamer کا بھوت سوار ہو گیا اور پہ در پہ قرآن کی تاریخیت پر تھیسس لکھے گئے ،تین سو صفحات Gadamer پر بات کر رہے ہیں اور ایک مرتبہ بھی لفظ ِ قرآن نہیں گزرا۔ پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ جیسے گاڈامر نے اصول التفسیر پر کوئی مجلد ضخیم کام کیا ہے اور ہم اُس پر ٹھہرے گئے ہیں ۔ جبکہ ہماری تاریخیت کا کسی گاڈامر سے کوئی واسطہ نہیں یہ تو ہماری روایت یعنی امام ماتریدی ، الجساس، عبدالله ابن عباس، القرطبی سے ملتا ہے میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اٹھ کر ہمارے فکری نسب کو نئی شکل نہیں دے سکتا ۔

10


ایک مثال اور پیش کرتا ہوں اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِىْ كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْـهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذلِكَ الـدِّيْنُ الْقَيِّـمُ ۚ…(التوبہ 36) خدا کی جناب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے خدا کی (کتاب)تقدیر میں، اوہ میرے خدایا ! یہ تو سب سے پہلا حکم ہے یعنی اللہ نے کائنات کو تخلیق کرنی آن کے اعتبار سے مہینوں کی یہ مقدار طے کر دی .. اب ذرا سنیے .. اِن میں سے چار مہینے حرام ہیں … اور یہ خدا کا قائم کردہ درست دین ہے ۔ میرے عزیز حاضرین ! یہ بہت شدّت والی آیتِ کریمہ ہے ، کہ مہینے بارہ ہونگے ، اور اُن میں سے بھی چار مہینے حرام ہوں گے ۔ آپ چھوڑیے مہینوں کو حرام مہینوں کے کیا ہونے کو ،ہمارے یہاں حاضرین میں سے بھی وہ چار حرام مہینے کون سے ہونے کو اکثر نہیں جانتے ہوں گے ۔تین کو سَرت اور چوتھے کو فَرت کہتے ہیں ، ذوالقعدة، ذوالحجة، محرم اور ساتواں مہینہ ہے رجب کا۔ اِن مہینوں میں کیا ہوتا ہے ؟ اِن میں قتل کرنا، خون بہانا سب حرام ہے .. ہمارے علما نے پیغمبر عالی جناب کی وفات کے بعد ، سورت ِ التوبہ میں اِس آیت کے اتنی شدت کے ساتھ موجود ہونے کے باوجود ، علما نے کبھی حرام مہینوں کی موجودگی یا غیر موجودگی پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں کی ، جیسے اُن کے خیال میں آیا کہ بھائی محرم کے مہینے میں داخل ہو گئے ہیں اب جنگ کو روک دیا جائے ، نہ ہی کوئی صحابی، نہ تأبعی نہ خلافائے راشدون نہ ہی أمویون، نہ عباسی نہ عثمانی نہ سلجوقی .. وہ دن اور آج کا دن، رسول کی وفات کے اعتبار سے کسی ایک بندہ خدا نے اِس حکم پر عمل نہیں کیا ۔
اِبن رجب حنبلی کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے، جب آپ دلیل پوچھتے ہیں تو اِس پر اُس کا بیان سنیے "استدلّل جمہور لأن الصحابةَ اشتغلُ بعد النبي بفتحِ البلادِ و مواصلةِ القتالِ والجهادِ ” یعنی مسلمان علما کی اکثریت کے دلیل کے مطابق کیونکہ اصحاب الرسول پیغمبر کی وفات کے بعد مشغول ہو گئے ، تمام خطوں کی فتح کے ساتھ اور بغیر کسی وقفے کے جہاد اور فتوحات کے ساتھ ، حرام مہینوں کے درمیان میں آنے پر کسی قسم کا وقفہ نہیں دیا ، اور یہ لوگ کون ہیں ، یہ اصحابِ رسول ہیں ۔ جنہوں نے بارگاہِ رسالت میں تیئس برس تربیت حاصل کی ، آیت کے نزول سے واقف اور اُس کے سبب کے شاہد ہونے کے باوجود ، آیتِ کریمہ کی موجودگی کے باوجود فتوحات فعالیت کو نہیں روکا کیے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حرام مہینوں کی بابت اترنے والی آیت اب منسوخ ہو چکی ہے ۔

11


دوسرا، میں نے آپ کو ظرف اور مظروف بتایا تھا ناں تو اُس طرف واپس آتے ہیں اللہ تعالیٰ قرآن میں جنت کی بات کرتا ہے تاریخیت انکارِ جنت نہیں ہے ۔جنت موجود ہے مگر جنت کی قرآن میں موجود ٹھوس تصوّر زمان و زمین سے بالا ایک تصویر نہیں ہے ۔ قرآن کے مخاطبِ اوّل ہونے والے گروہ کے فکر کو مخاطب کرنے والی تصویر ہے ، آپ سے کہتا ہوں کہ اُس تصور جنت کے آگے تین نقطے ڈال دیں ۔ ایسا فکر پیش کرتی ہے تاری! یت ۔ جناب یہ نیچے سے نہرئیں بہنے والی جنت .. . وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ …(الأنسان 21) جبہ پہنے والے ایک ہمارے اُستاد ہیں (مصطفی اوُزترک صاحب کی مراد روایت پسند ایک معروف عالم جُبے لیؔ احمد تھی مگر نام لیے بغیر بات جاری رکھتے ہیں ) اُنہوں نے ایک ویڈیو بنائی اور اُس میں گویا میرے بارے میں کہا جا رہا ہوں کہ جنت عربوں کی جنت ہے ! اب میں وادیِ فِرتنا ، وادی اَک سُو ، وادی ِ گریسون ،(بحیرہ اسود کے خطے ) رِزّے کے علاقے میں پیدا ہوا، پلا بڑھا ہوں .. جناتٍ تجري تحت الأنهار..ایسا کہے جانے پر میں اِس جملے کہ قریب قریب کس معنی میں استعمال ہونے کو سمجھ سکتا ہوں لیکن عربوں کے لیے ، اور بلکہ میں نے عرب سیاحوں سے شہرِ طرازبون میں سنا بھی یہ کہتے ہوئے کہ "هذا جنت الأرض ” یعنی دنیا کی جنت یہ شہر ہے !
اب ایک بار پھر سورة فاطر کی آیت نمبر 33 کی تشریح و تاویل دیکھتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جنت میں سونے اور چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور.. ولباسُهم فيها حرير ..اور ریشم کے کپڑے پہنیں گے صد احترام خواتین و حضرات ایک مرد ہوتے ہوئے ریشم کے کپڑے پہنو اور یہ اپنی کلائیوں میں بھی سونے چاندی کی چوڑیاں کنگن وغیرہ پہنو پھر نکلو گلیوں بازاروں میں دیکھنا لوگ کیسا سمجھیں گے تمہیں ! ایسے کسی شخص کے لیے فوراً سے پہلے کوئی غلط خیال ذہن میں آ سکتا ہے ۔ مگر نزول قرآن کے زمانے میں یہ سونے چاندی کے کنگن پتا ہے کس شے کو ظاہر کر رہا ہے اُس وقت کے پوش حکم دار لوگوں کو یعنی اُس وقت کے یاوز سلطان سلیمِ اوّل (1512 ۔ 1520) کے بھی کانوں میں بالیاں ہیں ، یعنی خدا کہہ رہا ہے کہ آپ کو وہاں شہنشاہوں کی طرح کی زندگی دوں گا مگر اگر آج آپ اُن کنگنوں کو سنجیدہ لیں گے تو مسائل سے دو چار ہو جائیں گے ۔

12

مثلاً قرآن میں ایک اور تصویر کشی ” حور مقصورات في الخيامِ” کے انداز میں پیش کی گئی ہے یعنی خیموں میں مسکن بنائے موجود حوریں ۔ اب میں آپ کو امام ماتریدي سے پڑھ کر سناتا ہوں کیوں کہ میری بات کا یقین نہیں کیا جاتا مگر کسی کا ایک ہزار سال پہلے دنیا سے آ کر چلے جانا اور نام کے آخر میں "ي” کی نسبت کا اضافہ ہوتا، ماترید۔ي۔ کی طرح یا میرا نام مصطفی اوُز ترک کی بجائے أبو منصور مصطفی ہوتا تو مجھے گمان ہوتا ہے کہ میری بات سنجیدگی سے سنی جاتی !
یا پھر میرے گزر جانے کے بعد میری صدا پہنچے گی ، فی الحال میں ماتریدی پر بات چھوڑ دیتا ہوں۔
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِير .. فاطر 33 کی تاویل ” ذکر تحلی فیها من ذهبِ و لو لو و لبس الحریر و لیس فی رجال رغبة فی هذه الدنیا "! عامیہ انداز میں ماتریدی کہہ رہا ہے حاضرین کہ یہ سب چیزیں ایک مرد کو خراب کریں گی ..مردوں کو اِس دنیا میں اِن چیزوں سے رغبت نہیں ہے .. اور اِسے کہنے والا لکھنے والا خود ماوراالنہر میں رہنے والا ایک ترک کہہ رہا ہے مگر آگے کہے گا کہ ” اللّهمَ اِلّا ان يكون العربي رغبتة في ما ذكر” یعنی اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلِ عرب کی ایسی چیزوں کی رغبت اور ذوق ہیں ۔ ” وهوَما ذُکرَ من الخیام فیها و المنازل و الغرافات و ذالک اشیا تستعملُ فی حالت الضرورة فی السفار و عند عدم غیره من المنازلِ والغرفات و… فأاما فی حالِ الختیار و جود غیره فلا” میں آپ کے سامنے خلاصہ پیش کر دیتا ہوں یہ خیمے وغیرہ کا ذکر ہوا نا قرآن کریم میں ماتریدی کا کہنا ہے کہ یہ خیمہ چادر ہمارے یہاں صرف سیلاب، زلزلہ و آفات جیسی مشکل صورتِ حال میں ضروری ہونے پر استعمال کی جاتی ہیں اگر آپ کا گھر بار ہے تو گھر کی بجائے ہماری قوم خیموں میں نہیں سوتی لہذا خیمہ کوئی ایسی پر تعش چیز نہیں اوپر سے ایسی کہ جنت میں ہم سے اُس کا وعدہ کیا جائے ہم ترکوں کے لیے یہ کوئی نعمت نہیں ہے مگر ماتریدی جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ عرب خیمہ پسند کرتے ہیں ۔ اگر اب آپ غور کریں تو امام ماتریدی نے انکارِ جنت نہیں کیا ، جنت کا یہ تصور وحی کے پہلے مخاطب انسانوں کی پسندیدگی اور اُن کے ذوق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اتارا گیا ہے ۔

13


دوسری بڑی اہم بات یہ ہے کہ ہم قرآن پاک کو ایک کتاب کی صورت میں، آناً فآناً نازل ہونے اور دفعتاً سے اترتا سمجھنے کے عادی ہیں حالانکہ قرآن مجید ایک سماج کو تئیس برس تک اُن پر اپنی بلاغت کے تصرف میں اُنہیں اُن کے فکری درجہ کمال تک پہنچانے کی کاوش بھی ہے ، آیت آیت بتدریج اترنے والے احکام آیات درجہ بدرجہ لایا۔ بالکل ایسے جیسے ہم اپنے بچے کی پرورش کرتے ہیں ، اُس کے بچپن میں اُسے منانے کے لیے چاکلیٹ، سائیکل، کمپیوٹر .. اور اُس کے بالغ ہونے پر اُسے کہتے ہیں کہ میں تمہیں اپنا حق پدری حلال نہیں کروں گا (میں تمہارا باپ ہونے پر شرمسار ہو جاوں گا ) ہر عمر کا ادراک، اُس عمر میں ڈرانے کے طریقے اور دیا گیا بدل مختلف ہوتا ہے .. حضرت ابو بکرؓ ایک دن میں حضرت ابو بکر نہیں بن گئے "میں اپنے معبود بت کے کھانا کھانے پر کھانا کھاوں گا” کہنے والے ایک مشرک سماج سے آئے .. آپ قرآن کریم کو اگر ترتیب نزولی سے پڑھیں گے تو دیکھیں گے کہ جنت کا ایسا کانکریٹ تصور وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے اور تجریدی ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر میں سورة التوبہ جو کہ آخری سورت بھی ہے اُس میں "و رضوان من الله اكبر(التوبہ 72 )” کہتے ہوئے پردہ گر جاتا ہے ۔
یعنی ابتدا میں جنت کی حوریں نہریں وغیرہ کا ذکر کرنے والا خدا آخر میں کہتا ہے کہ اِن سب سے بالا اور بڑھ کر رضائے ربّی ہے ۔ رضائے ربّی جیسی ایک تجریدی اصطلاح کو سمجھنے کے لائق ایک میچور اور اپنے کمال کو پہنچ چکنے والے اصحاب بنائے گئے ۔ ویسے بھی دنیاوی معاملات میں اضافے کے ساتھ ساتھ اُخری دنیا کے یہ وعدے بھی ہمیں کم ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔
اب ہم آتے ہیں اِس نقطے کی طرف کے روایت میں تاریخیت کی بنیاد کن پر ٹھہرتی ہے ، کیا آپ نے "نسخ” نامی کوئی اصطلاح سنی ہے ؟ اِس کا مطلب ہے کہ ایک شریعی حکم کا بعد میں آنے والے ایک شریعی حکم (دلیل) کی وجہ سے عمل سے خارج کر دینا۔ حکم کا اٹھ جانا ایک وقتی خروج نہیں ہے بلکہ یہ ایک نہائی اخراج ہے ۔” جناب میں نسخ قبول نہیں کرتا قرآن میں نسخ منسوخ نہیں ہے ” اگر آپ چاہیں آپ قبول کریں، چاہے قبول نہ کریں اُمت محمدی بیسویں صدی کے آغاز تک کم از کم نسخ کو قبول نہ کرنے والے کو مسلمان نہیں سمجھتی تھی ۔

14

آپ لوگ جانتے ہیں کیا؟ قرآن کے نسخ کے مخالف ہونے والوں کو ہمارے امام جساس، سرقسی جیسے عالم "ایسے شخص کا علم قابلِ اعتبار نہیں ، اِس کے مسلمان ہونے پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتا” یہاں تک کہ قرآن میں نسخ کا انکار کرنے والوں کو یہودیوں سے ملایا جاتا تھا ۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ تورات میں یہودی نسخ قبول نہیں کرتے جبکہ ہمارے یہاں نسخ موجود ہے ۔ بیسوئیں صدی کے بعد قرآنی اسلام میدان میں آنے پر سنت ، حدیث، روایات سب کو پس پشت ڈال دینے پر اور وہاں سے کچھ بھی سمجھے یعنی ممکنہ ادراک کے خاتمے کے بعد آ جا کر ہاتھ میں صرف قرآن مصحف رہ جانے پر ، یعنی اگر اِس میں بھی نسخ کریں گے تو ہاتھ میں کیا رہ جائے گا ، ایسی صورتِ حال میں ہمارے لوگوں نے نسخ کا انکار شروع کر دیا۔ مگر کیسی بات ہے کہ قریب چودہ سو سال امت قرآن میں نسخ کے موضوع پر اتفاق کیے رہی ۔
اب یہ کہا کس نے ہے کہ قرآن میں نسخ موجود ہے؟ خدا نے تو ایسا کہا نہیں ہے ، ہمارے پیغمبر ؑ نے بھی نہیں کہا تو اِسے کس نے نکالا؟ علما نے نکالی ایسی اصطلاح! کیوں ، وجہ کیا تھی؟ اچھا اب آپ ذرا سوچیں کہ ایک قرآن کا متن ہے ، اور ہم غیر مسلم سے کیسے تعلق بنائیں کے تناظر میں اُس میں سے آیتِ کریمہ تلاش کر رہے ہیں .. مثلاً پروفیسر شابان علی دُوزکن کہیں گے کہ "لكم دينكم ولي الدين ” آیت ٹھیک ہے یعنی تمہارا دین تمہارے لیے ہمارا ہمارے لیے ۔ یا پھر کوئی کہے گا کہ "لا اکرها فی الدین ” آیت زیادہ مناسب ہو گی کہ دین میں جبر نہیں ہے ، مگر اتنے میں ایک اور شخص آتا ہے اور سورت التوبہ کی آیت نکالے کہتا ہے فإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ (التوبہ 5)کہ یہ حرام مہینے گزریں نہ گزریں اِن مشرکوں کو جہاں پاؤقتل کرو یا پھر کہہ دے کہ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَي لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ (البقرہ 193) یعنی جب تک زمین پر سے فتنہ ختم نہیں ہو جاتا انہیں قتل کرو.. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم غیر مسلموں سے جنگ کریں گے ، یا پھر تمہارا دین تمہارے لیے ہمارا ہمارے لیں کہیں گے؟ یا پھر دین میں کوئی جبر نہیں ہے کہیں گے ؟ قرآن کی تین مختلف آیات ہمارے سامنے ہیں اور تینوں ہی مختلف باتیں کر رہی ہیں ۔

15


علما نے اِس مسئلہ کا یہ حل نکالا کہ سِن 610 کو ابتدا میں رکھا اور کہا یہ وحی اِس سِن میں شروع ہوئی اور 632 میں ختم ہو گئی اور تاریخ(وقت) کی ہموار متوازی لکیر کو بنیاد بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے آخر میں آنے والا حکم سب سے بہتر اور فرماروائی کا حکم ہے ؛ اللہ پاک نے جو بعد آخر میں کی ہے اُس پر عمل کیا جائے گا اور جو پہلے کی اُس موضوع پر آیت ہے وہ نسخ ہو چکی ہے ۔ یہ حضرت محمد اور صحابہ اکرام کے لیے ایک انتہائی فطری بات تھی کہ انہوں نے زندگیاں اِسی طرح گزاریں یعنی ایک ہی بار پیدا ہوئے اور اپنی زندگی کے آخر میں گزر گئے دوبارہ اب وہ آ کر نہیں جی رہے ہیں ۔ پیچھے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا انہوں نے ، مکہ میں رہتے ہوئے جنگ کی طاقت نہیں تھی تو خدا نے کہا فاصبر لحكم ربك .. یعنی اگر آپ کو تکلیف اور رنج پہنچے بھی تو تبسم سے جواب دیں اور صبر و استقامت سے اپنا وقت گزاریں ایسے کرتے کرتے مکہ کا دور ختم ہوتا ہے اُس دور میں "آپ کا دین آپ کے لیے ہمارا ہمارے لیے ” کا حکم آتا ہے ۔
مگر مدینہ ا ٓئے اور طاقتور ہو گئے اب ہمارے بھی ہاتھ میں اسلحہ آ چکا تھا اب ہم حقیر رویہ کے مستحق نہیں ہے۔ اب ہم نے بھی اپنی تلواریں نیاموں سے باہر نکال لیں اب جنگ کی آیت بھی اتر آئیں اور أصحاب الرسول نے اِسے کوئی پیراڈوکس نہیں سمجھا ۔ انہیں تو کوئی تضاد نظر نہیں آیا، کیوں کہ گزرے کل کی شرائط اور تھیں آج کی اور ہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج سے دس برس پہلے ملک ترکیہ کی سوشیالوجی اور آج کی میں فرق موجود ہے ۔ اَجی آج کے دس برس پہلے زندگی یُوں گزرتی تھی تو کیا آپ کو آج کی زندگی میں کوئی تضاد نظر آ رہا ہے نہیں بلکہ زندگی اپنے انداز میں بہے جا رہی ہے ، جہاں بھی لے جا رہی ہے ہم اُس کا اندازہ لگا سکتے ہیں مگر علما کی دانش یہ تھی کہ تاریخ جو سِن 632 پر جامد کر چکے ہیں کیوں کہ وہ سمجھے کہ اہل کتاب کے ساتھ یہی رویہ مناسب ہے کہ اُن کو قتل کیا جائے یا انہیں غلام بنایا جائے اور محکوم کر کے اُن سے جزیہ لیا جائے۔ اِس کے علاوہ اور کسی بھی طرح کا تعلق نہیں ہو سکتا ۔ اور اِس وجہ سے چودہ سو سال سے جزیہ اور اہلِ ذمّہ کے حقوق اِس آیت کو بنیاد بناتے ہوئے تعمیر کیے گئے ہیں ۔

16


اب ہمارا اہل کتاب کے متعلق رویہ ہے کہ ہم جائیں گے، جنگ کریں گے یا تو وہ مسلمان ہوں گے یا پھر ذِمی حقوق پر عمل کریں گے اور خراج ادا کیا کریں گے لہذا قرون وسطی میں مسلمان حکومتوں کا بین القوامی رویہ امن و آشتی پر مبنی نہیں ہے !! بلکہ جنگ و قتال پر تعمیر کردہ ہے ۔ ہماری مسلمانوں کے قانون کی کتابیں دیکھیں، جنگی رویے پر مبنی ہیں، پر امن معاشرے پر نہیں ۔ یعنی خدا کے پیغام "کلمہ اللہ” کو زمین کے ہر گوشے کنارے تک پہنچانا ، کیسے پہنچائیں گے ؟ فتوحات کے ذریعے سے ! وہ جُبے لؔی مجھے اِس بات پر بھی تنقید کرتا ہے کہ میں اپنے آباو اجداد کو قبضہ گروپ کہتا ہوں ، میرا کہنا صرف یہی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ہمارے پیغمبر رحمت العالمین ہیں اور اب یہ پیغام میں دنیا کے گوشے گوشے میں جہاد کے ذریعے لے کر جائیں گے یہ کیا ہے ؟ کوئی مجھے بتائے گا؟ آپ سے پوچھتا ہوں کہ اِسکاندنؔویا کے ساتھ بغیر کسی وجہ کےاسلام پہنچانے کے لیے جنگ کا اعلان کرنا کس حد تک معقول ہو گا ! یا ایسے کسی عمل کی میں آج کی دنیا کے مطابق کیا وضاحت کروں ؟ غیر جانبدار ہو کر سوچیں تو کیا یہ امریکا کے أفغانستان پر حملہ کی طرح سمجھا جائے گا کہ نہیں (اگرجمہوریہ ترکیہ، پورپ کے کسی ملک پر حملہ کر دے تو) ہم کیسے کریں گے یہ کام؟ اور قرآن کے حکم کو تاریخی پیرائے میں سمجھنے کا سب سے مناسب طریقہ یہی ہے کہ اُس کے وقت نزول سے مَربوط ہو نا ہے ۔ دیکھیں نا یہ آیت کتنی مؤثر ہے "و قاتلوهم حتي لا تكون فتنه ويكون دين كل لله ” یہ آیت لفظی معنی میں یہ کہہ رہی ہے فتنے کے اٹھ جانے اور دین صرف اللہ کا رہ جانے تک اُن کے ساتھ جنگ کریں ۔ فتنے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے ؟ اب ہمارے علما نے وہاں لفظ "کفر” داخل کیا ہے یعنی زمین پر کفار کی موجودگی تک .. آپ اٹھا لیجیے کوئی سی بھی تفسیر نوّے فیصد نے یہی لکھا ہے ، یعنی دنیا میں ہر کسی کے مسلمان ہو جانے تک جنگ جاری رہے گی ۔
جہاں تک اِس آیت کے نزول کا سبب ہے, تو وہ بھی دیکھ لیجیے رسول اللہ عبداللہ بن جاشؓ کی سرپرستی میں ایک سرِّیہ بھیجتے ہیں، سرِّیہ آپ کی اپنی کمانڈ نہ کی گئی کم تعداد کی ایک جنگی کمک ۔ یہ غزوہ بدر سے کچھ پہلے ہونے والا واقع ہے، اِس دوران ہمارے صحابہ ایک مشرک کی جان لے لیتے ہیں اور اُس کی موت کا وقت بھی قریب قریب حرام مہینے میں آتا ہے جس پر مشرکین سٹپٹاتے ہیں کہ محمد کیا تم اب حرام مہینوں کا تقدس بھی نہیں کرتے ، روایت اور رواج کی بھی پاسداری نہیں کرتے ..

17

حالانکہ حرام مہینے تو تمہاری کتاب میں بھی موجود ہیں .. کیسے جان لے لی تم لوگوں نے ، وہ بھی حرام مہینوں میں! جس پر قرآن کہتا ہے کہ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ (البقرہ 194 ) یعنی کیا یہ حرام مہینے صرف ہماری دفعہ ہی حرام ہوتے ہیں آپ لوگوں نے تیرہ برس برابر مسلمانوں پر ظلم و تشدد روا نہیں رکھا ، تب کیا آپ لوگوں کے ذہن میں حرام مہینوں کی قدسیت آئی کیا؟ جی، تو حاضرین مجلس انسان کو جان سے ماردینا غلط ہے مگر فتنے کو ختم کرنا زیادہ ضروری ہے۔ آیت کا قصد یہ ہے کہ فتنہ؛ آپ کے ایمان و اعتقاد کی طرف اٹھائی جانے والی ہر شدّت، دباؤ تضحیک کے ختم ہو جانے تک ، انسانوں کا کسی بھی ایمان اعتقاد اور دین پر عمل کرنا ، کسی اور کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی دی ہوئی فعل کی آزادی سے شخصی حریت کے ہو جانے تک جنگ کریں ۔ عوام الناس کی حُریت اعتقاد پر مبنی آیت کو آپ نے دنیا کو مسلمان بنانے کی آیت بنادیا ہے ۔ آیت کے أسباب انزول کو درمیان سے نکال دینے سے آیت بے سروپا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی نظر رکھنے کا فائدہ ایسے ہوتا ہے ۔ کاش یہ حرام مہینوں کا قانون جاری رہتا تو اور کچھ نہیں انسانیت کم از کم چار مہینے تو سکھ کا سانس لے سکتی، دیکھیں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ "تاریخیت ” بعض أوقات کسی آیت کے حکم کو نسخ کہنے والوں کے سامنے اُس آیت کے حکم کو عمل میں لانے کی خواہش کرنے والی ایک فکر ہے ۔
اِس فکری روِش کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ آیات جنہیں علما نے منسوخ قرار دے دیا ہے اُنہیں دوبارہ زندگی میں لایا جائے .. آپ دیکھیں محترم شرکائے مجلس کہ توبہ سورت کی یہ آیت5 ، آیت سیف کہلائی جاتی ہے بعض کے مطابق 500 ، بعض کے مطابق 110 اور کم سے کم کہنے والا بھی اِس آیت سے 5 آیات کے نسخ ہو جانے کا کہتا ہے ۔ تعداد جیسی بھی ہو یہاں نسخ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اِس آیت کا حکم ختم ہو چکا ہے اور ایسا کس نے کہا ہے ؟ ایسا میں نے یا آج کے کسی شخص نے نہیں کہا ایسا تو چودہ سو برس سے سبھی کہتے آئے ہیں، تو آپ بتائیے کہ ایک آیت کو ہی نسخ کر دینا کہنا ہے اُس کا حکم اٹھ چکا ہے کیا اِس سے بڑا کوئی دعوی ہو گا کوئی ریڈیکل بات ہوگی؟ کتنی تنگ نظری ہے، کتنی مائیوپک بات ہے کہ تاریخی کتب میں کہی جانے والی آیات کے نسخ پر کسی کو کوئی شبہ بیدار نہیں ہوتا یعنی اِس آیت کا مطلب عملی زندگی میں نہیں ہے بس تلاوت و تسبیح میں پڑھی جا سکتی ہے ۔

18


اچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں "تفاضل” کی بحث بھی موجود ہے ۔ یعنی کیا آیاتِ قرآنی کے درمیان مرتبہ اور فضیلت کی درجہ بندی ہے ؟ axiology کی نظر سے اگر اہمیت و قدر کے معیاری پیمانے میں ڈالیں ، یا الہیٰ پیغام کی شدّت کو مدِ نظر رکھیں یعنی آیت الکرسی کو ایک پلڑے میں اور سورة المسد کو دوسرے میں ڈالیں تو کیا دونوں کا وزن ایک برابر ہے؟ یہ بحث ہمارے علما کر چکے ہیں ۔ اب اِس بحث کا منبع کہاں ہے؟ مثلاً قرآن کی ساری آیات کی ملکہ کون ہے ؟ آیت الکرسی ہے۔ کونسی سورت قرآن مجید کا ایک تہائی ہے ؟ سوہ اخلاص ہے ۔ قرآن کی سب سے اعلی مرتبت سورة کونسی ہے ؟ الفاتحہ ہے!
اب یہاں سے ایک قیاس ہو سکتا ہے یعنی اگر آیات میں برتری آیت الکرسی کو حاصل ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ آیت الکرسی سب سے افضل ہے ۔ رسول اللہ نے سورة المسد کو قرآن کا ایک تہائی نہیں کہا بلکہ سورة اخلاص کو کہا۔ اِسی وجہ سے ہمارے علما نے اِس بحث میں کہا کہ قرآن کی ساری سورتیں کلامِ الہیٰ ہونے کی حد تک ایک برابر ہیں فقط معنیٰ ، پیغام اور مسلمانوں کی علمی زندگی میں کار آمد ہونے کے اعتبار سے ایک جیسی اہمیت نہیں رکھتیں ۔ کون کہہ رہا ہے ہے ؟ امام اعظم ابو حنیفؓہ کی کتاب میں بھی اِسے آپ دیکھ سکتے ہیں ملاں علی القاری کی شرح میں یہ موجود ہے ۔اور اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آیت مسلمانوں کی زندگی میں ایک ہی سطح پر ایک ہی انداز میں کارگر نہیں ہے ۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے چلتے رہے تو انجام کیا ہوگا؟ یہ راستہ کہاں ختم ہو گا؟ اگر ہم کہیں ٹھہر گئے تو کہاں جا رکیں گے؟ آپ میں سمجھتا ہوں کہ اِس سارے معاملےکو ہر آن جی رہے ہیں ۔ مثلاً کیا نماز تاریخیت کے حلقہ میں داخل ہوتی ہے ؟ لونڈیوں کو ، غنیمت کو تو آپ تاریخ کے ضمن میں دیکھتے ہیں، تو نماز کو آپ کیسے تاریخ سے مبرا سمجھتے ہیں؟ دیکھیں تعلیلی حکم ہوتے ہیں اورتعبدی حکم ہوتے ہیں ۔ تعلیلی احکام عِلت اور سبب سے پیدا ہونے والے معاملے پر اترنے والے احکام ہوتے ہیں ۔ یعنی ایک دشمن پیدا ہو گیا ہے تو خدا کہے گا کہ اِس سے جنگ کریں۔ مگر دوسری طرف خدا کی عبادت ایک وجودی قرض ہے جو ہمیں خدا کو ادا کرنا ہے اِس کا علت کے ہونےنہ ہونےسے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ تعلیلی حکم سوشیالوجی سے منسلک ہے ۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ نماز کی اشکال بدل جائیں ، یہودیت میں اگر اُس طرح پڑھی جاتی ہے تو ہمارے یہاں اِس طرح پڑھی جاتی ہے یہ غیر اہم ہے ۔ اہم عبادت کا ontologic debt وجودی قرض ہونا ہے ۔ اِس کا علّت و معلول سے ، یہاں وہاں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

19

میرے نزدیک نماز کی موجودہ شکل کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اِسی شکل میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی اور ایک اجتماع کی صورتِ حال میں آتے ہیں۔ دوسری طرف تعلیلی احکام ایسے نہیں ہوتے کیوں کہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے زمانی مکانی شروط سے ملحق ہوتے ہیں۔ بنی آدم کے اِس قرض شکر کا کسی قوم، کسی تاریخ یا سوشیالوجی سے کوئی تعلق اور کوئی حد بندی نہیں ہے ۔ بلاشبہ عبادت کی ساخت، اُس کے مناسک میں بدلاو آیا ہے، یہودیوں کی نماز ایسی ہے اور ہماری ایسی ہے ..اِس کی اہمیت نہیں ہے ، اہم یہی ہے کہ عبادت ایک وجودی قرض اور فریضہ ہے، آپ خدارا آنٹولوجی کو سوشیالوجی سے گڈمڈ نہ کریں۔ آپ سب کے سامنے ابھی میری بیان کردہ تاریخیت سوشیالوجی کی مد میں ہے ، اگر آپ تاریخیت سے آنٹولوجی پر حملہ کریں گے تو آپ کا دین مذہب سے نکل جانا امر لازمی ہے۔ یعنی عبادت تو میرا وجودی فریضہ ہے .. اگر اب آپ کہیں کہ پروفیسر کیوں نہ عبادت کے اراکین اور مناسک میں کوئی رَد و بدل کر لیا جائے ، کوئی نت نئے طور طریقے بنا لیں .. تو ایسی فکر کے میں خلاف ہوں کیوں کہ ، عبادت کا صرف مجھ پر ہونے والا کوئی ذاتی اثر نہیں بلکہ عبادت کا دین کے مجموعی رویے میں انسانوں کو یکجا کرنے کا فعل بھی نہایت اہم ہے۔ اِسی لیے میں باواسطہ وحی آنے والی، اور اکابر صحابہ کی طرف سے عمل میں لائی جانے والی اور ہم تک پہنچنے والی عبادات میں ردوبدل کے خلاف ہوں۔ دین کے متن میں ہم سب کے لیے مختلف آرا رکھنے کا احتمال موجود ہے ، ایک ہی آیت کو پڑھنے والے تین عالم تین مختلف پہلو پر بحث آرا ہو سکتے ہیں ۔
اب میں آپ کو سنتِ ابراہمی کی مثال دیتا ہوں یعنی بافرض عید الضحیٰ آ گئی ہے تو یہاں موجود ناظرین کسی قسم کے اختلاف کے بغیر صبح کی نماز عید ادا کرتے ہیں، قربانی میں شامل ہوتے ہیں، اچھے انداز سے ذبحہ کر کے اقربا اور پڑوسیوں میں بانٹتے ہیں، عید ملتے ہیں اور کہیں بھی کوئی اختلافی رائے پیش نہیں آتی۔ تو ایسا کرنے میں ہم کس کے مشکور ہیں؟ کیا سورة الکوثر کے مشکور ہیں؟ اگر سورت کوثر سے قربانی کے احکام اور فرائض اور نوعیت کو جاننے لگیں تو حاضرین یہاں موجود لوگوں کی تعداد میں یعنی قریب پانچ سو مختلف انداز نکلیں۔ کیا قربانی کے مسائل اور بیان سورت کوثر سے نکلیں گے یا نہیں وہ الگ ایک مسئلہ ہے، "والنحر” کا معنی کیا ہے پہلے تو اُس پر اتفاق ممکن نہیں، دوسرا قربانی کرنا واجب ہے یا فرض ہے، اِس پر بھی ایک رائے ہونا ممکن نہیں…

20

اِس سب کے باوجود ہم اِس اتفاق حسنہ میں کس کے مشکور ہیں؟ زندہ سنت کے مقروض ہیں۔ اِسی لیے اِس جاری سنت میں اگر کہیں کبھی کوئی اجتہاد کی ضرورت پیدا ہوئی بھی تو تاریخ اُسے خود سے کر چکی ..آپ موجود سوشیالوجی میں چاہیں یا نہ چاہیں موجود سوشیالوجی خود سے اپنے جغرافیائی اعتبار سے اجتہاد کرتی ہے اور آپ کو بھی اُسی پر عمل کرواتی ہے ، کیا ا ٓپ میں سے غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والا موجود ہے؟ لونڈیوں کہلائی جانیں والی عورتیں ہیں کیا آپ کی؟ تو یہ اتنی آیتیں کیا بے وجہ ہیں قرآنِ کریم میں؟ سورة النسا کی آیت نمبر پچیس پر پھر کیسے عمل کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اتنی طویل آیت نازل کی ، آیت کہہ رہی ہے کہ ایک آزاد عورت سے نکاح نہیں کر سکتے تو جائیں اپنے لیے کوئی لونڈی لے لیں .. اور کم از کم تراویح میں امام اُس آیت کو بھی پڑھتا ہے اور آپ بھی سن لیتے ہیں ..جب 1923 میں مصطفی کمال اتاترک نے ترکیہ کو جمہوریت سے آراستہ کیا تب ہمارے ہاں استنبول (Üsküdar)اُسکودار میں موجود غلاموں کی خریدوفروخت کا بازار بند ہوا ، کیا آپ یہ جانتے ہیں؟ اِس بازار کے بند ہونے میں بھی ہم اصل میں "چُوڑے”(یورپی) کے انسانی حقوق کے مقروض ہیں۔ ہاں جی ، خلیفہ عبد المجید کے دورِ تنظیمات میں کی جانے والی اصلاحات کے بھی خلاف آواز اٹھائی گئی ..کہ یہ شرعی ہے، شرعی ہے، کہتے ہوئے سب غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والے بازاروں نے بغاوت کی .. یہ تو ابھی کوئی پچانوے سال پہلے یہ مسئلہ ختم ہوا۔ غلام کا مطلب جانتے ہیں آپ ؟ متقوم مال ہے یہ ، یعنی خریدا جا سکتا ہے ، بیچا جا سکتا ہے ، کرایہ پر دیا جا سکتا ہے ، غصب کیا جا سکتا ہے ، ایک سے زائد افراد کا مالِ مشترک ہو سکتا ہے ، میراث میں چھوڑا جا سکتا ہے ، ہر طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے ، یہاں تک کہ ایک غلام لونڈی کے تین مشترک مالکان ہو سکتے ہیں ، لونڈی کے حاملہ ہو جانے کی صورت میں تینوں ہی باپ ہونے کا دعوی بھی کر سکتے ہیں ، اِس پر قرعہ اندازی بھی کی جا سکتی ہے ،… کہہ سکتے ہیں کہ پروفیسر آپ بات کو یونہی طوُل دے رہے ہیں، نہیں ہرگز نہیں ، آپ امام سرقسی کی کتاب المبسوط اٹھا کر دیکھ لیں اب تو ترکیہ زبان میں بھی مترجم ہے ، اُس میں کتاب الشریکة باب میں ، آپ کا دل خراب ہو جائے گا.. قرآنِ کریم اِن مسائل کی موجودگی میں نازل ہوا،اِن معاشی رویوں کو اُس نے کوئی value add نہیں کی ، موجود زمانہ کے معاملے کو بیان کیا قرآن نے، ہم نے اُس واقع کو اپنے لیے قیمتی بنا لیا۔ یعنی ہم نے وقع ہونے والے کسی انسانی حادثے کو اپنے لیے قدر و قیمت کا سبب بنا لیا۔ ۔اور ہم ہمیشہ یہی کرتے آئے ہیں، قدر و وقع (değer ve durum)کو آپس میں ملا تے رہیں ہیں مثلاً پیغمبر کا زینبؓ سے نکاح ایک واقعاتی صورتِ حال ہے ، جس کا نبوت سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے ، اگر آپ اُس واقعے کو نبوت کے ضمن میں لے جائیں گے تو پیدا ہونے والے مسائل سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ عرب ثقافت میں یہ ہو جانے والی چیز ہے، ابنِ جریر الطبری نے بھی اِس کی وضاحت کی ہے کہ عرب میں ایسا ہو جانا کوئی خارق العادت نہیں ہے۔ دوسری طرف امام ماتریدی سے رہا نہیں جا رہا، کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ، کہ پیغمبر نے زینبؓ کو دیکھا، اُن کو اچھی لگی .. یہ ،وہ .. اپنے منبع، منہ بولے بیٹے ، غلام کی بیوی .. ماتریدی اِس ساری بات کو قبول کرنے سے تردد برتتے ہیں ۔ کہ اپنے شرف و حیثیت اور وقار کے مطابق ایک رسول ایسا کیسے کر سکتا ہے ؟ اِس کی وجہ یہی ہے کہ ماتریدی اپنے کلچرل کوڈ میں رہتے ہوئے کہ ہم ترکوں میں جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں گھوڑا، عورت اور اسلحہ کسی کو دینا ناقابلِ قبول ہے ۔ جبکہ اب عرب کلچر کی ایک مثال دیتا چلوں کہ پیغمبر ﷺ نے مدینہ ہجرت کرنے پر جب مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تو سعد بن ربیعؓ (انصار) اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ(مہاجر) کے درمیان اخوت قرار پائی۔ دونوں کے درمیان ایک مکالمہ گزرتا ہے ،

21

انصار سعد بن ربیع عبدالرحمن بن عوف کو کہتےہیں کہ تمہیں بھی تو ایک بیوی کی ضرورت ہے ۔ میری کچھ بیویاں ہیں اُن میں سے پسند کرو، میں اُسے طلاق دیتا ہوں اور اُسے تم رکھ لو۔ کیا ہم میں سے ایسا کہہ سکنے والا کوئی موجود ہے؟الزمخشری اِس آیت کی تفسیر میں کہتا ہے کہ "لم یکن عندهم مستنکراً و مستهجنا” اُس قوم میں ایسی چیزوں کو ناخوش یا ناذیبا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ویسے بھی عرب روایت میں شادی، نکاح، طلاق اور تعلق داری میں جدید یورپی رویے سے مطابقت پائی جاتی ہے ۔ ہم، ہم یورپ کے کیتھولک روّیے کی عکاسی کرتے ہیں یعنی اگر علاحدگی اختیار کر لی ہے یا طلاق دے دی ہے تو قیامت ٹوٹ پڑتی ہے .. ہر طرف صفِ ماتم بچھ جاتی ہے ۔”ارے بھائی آپ ایسا نہ کرتے تو اچھا ہوتا” یوں کر لیتے وغیرہ مشورے دیے جاتے ہیں” ارے بھائی آپ کو اِس سے کیا ہے؟ طلاق دے دی ہے تو دے دی ہے ، اِس میں کیا ہے۔ یا پھر جذباتی طور پر افسردگی کا سماں ہے ، بھئی معاملہ ختم ہوا تم اپنی راہ پر میں اپنی راہ پر .. اہلِ عرب ایسے کرتے ہیں ۔ حضرت پیغمبرﷺ کو صبح حضرت ابوبکرؓ اپنی بیٹی دے رہے ہیں اور شام کو اُن سے اُن کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے جا رہے ہیں۔ کیا آپ اِس تعلق پر غور کریں گے ؟ میں تمہاار سسر ہوں تم میرے داماد ہو اور ایک ہی وقت میں تم میرے سسر اور میں تمہارا داماد ہوں ..اچھا ہی ہوا کہ رسولِ خدا نے ابوبکر کو نہیں حضرت علیؓ کو حضرت فاطمہؓ کے ساتھ بیاہ دیا۔ تو یہ کلچر ہے .. !
قرآنِ مبین ، دین اسلام کی کتاب ہے ، اِس پر ہمارا ایمان ہے ۔ لیکن اِس میں موجود جزویات تماماً دین کے بارے میں نہیں ہیں۔ اُس میں اُس وقت کے زمینی حقائق، سوشیالوجی ، کلچر کے عکس موجود ہیں۔ ایک آخری مثال دینا چاہوں گا ، بلکہ زیادہ کریٹکل مثال دینا چاہوں گا.. تصورِ خدا!
خدا تعالیٰ قرآن میں اپنے آپ کو ، ملِک، بادشاہ کی طرح بیان فرماتا ہے ۔”اُس کے لشکر ہیں، اُس کا تخت ہے، یہ بیٹھنے پر پیر رکھنے کی جگہ ہوتی ہے ناں یہ "کرسی” کہلاتی ہے ، اُس کی کرسی ہے ، اُس کا عرش یعنی آفس ہے۔ مالائے اعلیٰ کہلائی جانے والی ایک کونسل ہے ، اُس کے خدمت گار ہیں اور خود وہ ملِک القدوس یعنی بادشاہ ہے ۔ اور خود کو کہاں پر بتلاتا ہے ،” أم أمنتم من في السماء” یعنی آسمان پر ہے۔ ایک مشہور حدیث میں ہے کہ ایک لونڈی سے پوچھا گیا کہ بتاو خدا کہاں پر ہے تو اُس نے کہا آسمان پر ہے۔ فرمایا گیا اِس نے سچ کہا اِسے آزاد کر دیا جائے ۔ صحابہ بھی آسمان پر ہونے کو قبول کیے ، انہوں نے کوئی تاویل نہیں کی۔ یہاں تک کہ شفاعتِ عظمیٰ کہلائی جانے والی ..بروزِ محشر.. تمام انسان ہلاک ہو جائیں گے اور اور فریاد کریں گے کہ حساب اب شروع کر دیا جائے ..اور کوئی اور پیغمبر نہیں بلکہ ہمارے نبی ﷺ فریاد کریں گے کہ یا پروردگار انسانوں کا حساب لے لیں ..

22

تو اُس شفاعتِ عظمی ٰ کی روایت میں اللہ تعالی ہزاروں فرشتوں کے جھرمٹ میں اپنے تخت پر آسمان سے زمین پر اترے گا.. اتنی مظبوط جسمانی روایت .. اللہ تعالی کا اپنی شہادت کی انلگی.. اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹ.. ایسی سینکڑوں احادیث موجود ہیں ۔ اورہم میں اہلِ حدیث کہلائے جانے والے اِن میں سے کسی بھی روایت کی تاوئل یا تشریح نہیں کرتے ، خدا مسکرا رہا ہے تو مسکرا رہا ہے .. مگر ہمارے علما نے ایسے تصورِ خدا سے پیدا ہونے والے مسائل کو پیشِ نظر رکھا، کہ یہ تصور تو انسان سے مشابہ ہے ۔ جبکہ صحابہ کے لیے ایسے تصورِ خدا سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اُن کے لیے یہی تھا کہ ایک ہو ، چاہے آسمان پر ہو یا زمین پر، اُس کا ایک ہونا کافی تھا۔ تیسری صدی ہجری میں جهمیة کہلائے جانے والا فرقے کا "اللہ ہر جگہ پر حاضر ناظر ہے” کہنے کی دیر تھی کہ احمد ابن حنبل ایسا کہنے والوں کو کافر کہہ دیتا ہے ۔ کیوں؟ کہ ہر جگہ پر کیسے حاضر اور ناظر ہو گا، احمد ابن حنبل کہتا ہے کہ آسمان پر ہے ، آیت میں بھی یہی لکھا ہے۔ اُس وقت خدا کو ہر جگہ حاضر ناظر ماننا کہنا کافر اور جهمی کہلاتا تھا آج اہلِ السنت کہلاتا ہے ۔ اُس دن زندیق کہلائے جانے والا تصور، آج آپ کا تصورِ خدا ہے ۔ آپ تصورِ خدا کے رویے ملاحظہ فرمائیں ۔ بلکہ باقائدہ احمد ابن حنبل نے اِس پر "الرد علی الجهمیة و الزنادقه” نامی کتاب تحریر کی۔ تصور بدل رہا ہے لیکن اُس اسم کا مسمیٰ یعنی مفہوم ، اُس کا ایک ہونا، اور ہمارا اُس خدا کے لیے شکرگزاری کا قرض نہیں بدل رہا۔اب ایسے میں کوئی ابنِ عربیؔ سے بھی پوچھے کہ اِس حد تک قرآن میں خدا نے اپنے آپ کو بیان کیا تو وہ کیا کم تھاکہ تم نے وحدت الوجود جیسی باتیں بنا بیٹھے۔ اِس پر مستزاد یہ کہ پھر وحدت الشہود نکالا گیا۔ .. علمِ کلام نے خدا کو رسمیت سے بھی پرے ایک ایسی لغت میں ڈھال دیا ہے کہ خدا کیا ہے سے زیادہ وہ کیا نہیں ہے پر اپنی بلاغت قائم کیے ہے۔ دوسری طرف تصوف نے خدا کو انسان کے قریب لانے کی کوشش کی جس کا ایسی شطیحات کی صورت میں نکلا کہ میں شام کو اللہ سے ملا، ہم نے ساتھ میں کھانا کھایا .. وغیرہ آپ سب جانتے ہیں کہ اِس کی ایک درمیانی راہ موجود ہے .. اِس ضمن میں نے ایک مقالہ علمی جریدے کو روانہ کیا، مقالہ چھپ تو گیا مگر مدیر نے اداریے میں تنقید کی کہ یہ مصطفیٰ اُوز ترک، اللہ کو کیا کہہ رہا ہے وہ ایسا نہیں ہے ایسے ہے.. میں نے اُس کو جوابی خط میں لکھا کہ کیا تم خدا ہو جو ایسے یقین سے اپنے بارے میں بات کر رہے ہو؟ قرآن کا تصورِ خدا کہنے سے دراصل تمہارے مراد اپنے تصورِ خدا کی ہے ۔ آج تمہارا تصور خدا کہلائے جانے والا تصور آٹھ سو سال پہلے زندیق اور جهمي کہلاتا تھا کیا تم جانتے ہو؟ میں نے لکھا۔ بس ہم ایسے ہی جہالت، اندھی تقلید اور آئیڈالوجی کے آمنے سامنے ہیں۔ میرے خیال میں میں اب اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا .. میں ایک مسلمان ہوں .. علومِ اسلامی کا استاد ہوں.. اور تاریخی ضمن میں اِن کا مطالعہ کرتا ہوں۔ جس صورتِ حال میں میں پیدا ہوا ہوں جس وقت اور تاریخ میں میں موجود ہوں اُسی میں قرآن کی آیات پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اُن کا فی زمانہ حکم کارگر نہیں ہے تو نہیں ہے .. معاف کیجیے گا لیکن امتِ محمد سے اگر پوچھا جائے کہ اِس کتاب کریم میں خدا نے کیا فرمایا ہے تو کل ملا کر چوّن فرائض نکلتے ہیں۔ اور یہ کوئی ایسا نہیں ہے کہ جی اصل میں دو سو چالیس فرائض تھے علما نے اُنہیں مختصر کر کے چّون بنایا ہے .. کوئی تنزیلات نہیں ہیں..اُن میں بھی تداخل موجود ہے چلیں اُنہیں پچاس کے قریب سمجھ لیں۔ اُن میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جن پر میرا یہاں کہنا ضروری نہیں تھا، آپ اپنی روزمرہ کی زندگی سے اِن فرائض کی آج ناقابلِ استعمال ہونے کو ظاہر کر رہے ہیں۔ میں نے شاید جلی حروف میں کہا تو اِس واسطے مجھ پر بجلیاں گرنے لگیں۔ یعنی کہنا نہیں چاہیے تھا کہ سکون میں رہتا ۔ آج میری یہی درخواست ہے کہ آپ سب مجھے بتائیں کہ اِن آیت کا فی زمانہ ہم اپنی زندگیوں میں کیسے اطلاق کریں۔ ازراہ کرم مجھے لونڈیوں کا اطلاق سمجھائیں، ویسے بھی سب سے زیادہ کسَم پرسی کی حالت میں آج کا مسلمان نوجوان سے ذرا اُن کی بھی تشفی ہو۔
وسلام۔
(30 اکتوبر 2018)

23

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے