The Other Prophet: Jesus in the Qur’an
Klaus von Stosch and Mouhanad Khorchide
ایک تنقیدی اور تلخیصی جائزہ
اینگلیکا نویوِرتھ[1](Angelika Neuwirth) اور محمود ایوب[2](Mahmoud Ayoub ) کے مطابق رسالت مآب کے دور میں شہرِ مکّہ میں مسیحیوں کی موجود مشتبہ ہیں۔ جبکہ سٹوش(Stosch) کی تحقیق کے مطابق اِس بات کا ہرگز تعین کرنا ممکن نہیں ، اِس کے برعکس وادیِ بطحا میں یقیناً مختلف نوعیت کے مسیحی نظریات موجود تھے کہ جن کی طرف قرآن اِشارہ بھی کرتا ہے۔ بہت سے اسکالرز کا یہ گمان ہے کہ قرآنِ کریم میں عیسیٰ کے لیے “ ولداللہ “ کہے جانا اور اِس پر اعتراضِ توحید، مجموعی طور پر عیسائیوں کی طرف تنقید نہیں ہے ۔ جبکہ سٹوش(Stosch) کے مطابق یہ مسیحیوں کے ایمان بارے ایک اعتراض بہ ہر طور ہے، لیکن یہ وادیِ مکّہ اور اُس کے اطراف میں بسنے والے مخصوص عقیدہ کے حامل ” عیسائیوں” کے لیے کہا گیا ہے۔ اور یہ مسیحی کہ اگرچہ مرتد (Heretic)عقیدے کے حامل نہیں تھے لیکن اُن کے عقیدے میں کچھ ایسے مسائل موجود تھے ، جیسا کہ آج بھی عیسائیوں میں ایسے اشکالی عقیدے (Problamatic) موجود ہیں۔ اِس بارے سٹوش (Stosch) کی مونا تاتاری[3] (Mona Tatari) کے ساتھ شائع کردہ ایک دوسری کتاب(Marry in Quran) میں ہم اِن اعتراضات کی تفصیلی اَبحاث دیکھ سکتے ہیں ۔ اِن کا کہنا ہے کہ قرآن ِ مجید کے حوالے سے جب ہم عیسیٰ کے بارے آیات دیکھتے ہیں.
[1] Neuwirth, Angelika. Der Koran als Text der Spätantike. Ein europäischer Zugang. Berlin: Verlag der Weltreligionen, 2010.
[2] Ayoub, Mahmoud. A Muslim View of Christianity: Essays on Dialogue (Faith Meets Faith Series). Edited by Irfan A. Omar. New York: Orbis, 2007.
[3] Tatari, Muna, and von Stosch, Klaus. Mary in the Qur’an: Friend of God, Virgin, Mother. London: Gingko Library, 2021.
1
تو ہم اُنہیں اوّل تو اُس تاریخی پسِ منظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں اُن آیات کے اسباب ِنزول شامل ہوں۔ دوئم، ہر آیت کو اُس کے مندرجہ سیاق و سباق (intertexual readings)میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں یہ بھی اہم رہے کہ ایک سورت کا اپنا مجموعی موضوع کیا ہے۔ مثال کے طور پر سورت مریم اپنے مجموعی موضوع میں خدائے باری تعالیٰ کی رحمت کا احساس دلاتی ہے، اور اِس میں اسمِ رحمٰن اور لفظِ رحمت کی تکرار دیکھنے کو ملتی ہے ۔
چونکہ اِس مذکورہ بالا کتاب میں کلیدی فکر "اسلام میں علم مسیح شناسی یا christologyہے ، لہذا جنابِ عیسیٰ ؑ کے بارے میں قرآنی آیات کو سمجھنے کے اِس عمل میں انہیں باہمی ربط میں پیشِ نظر رکھا جائے گا ۔ یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سورت مریم اور سورت زخرف کے مابین کیسا تعلق ممکن ہے اور سورت ۱۷۔ یعنی وہ دیگر سورتیں جو نبوت کے بعد مکہّ میں نازل ہونے والے کلامِ باری کا حصہ ہیں بالخصوص وسطی دورِ وحی (middle maccan period) سے منسوب ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر علمِ مسیح شناسی کے متعلق آیات کو اُس دور کے عیسائیوں کے بعد کے مسلمان علما نے کس انداز میں سمجھنے کی کوشش کی۔ اِس کتاب میں اِس بات پر توجہ دی گئی ہے کہ یہ مضامینِ آیات ایک مسلم علمِ مسیح شناسی کی بنیاد میں کیسا تکنیکی مواد فراہم کرتی ہیں۔ تاریخی پسِ منظر میں اول اول تو مستشرقین نے کہا کہ قرآن تورات و انجیل سے متاثر ہو کر بنایا جانے والا ایک متن ہے۔ لیکن آج ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن نقالی یا سرقہ نہیں بلکہ عقیدہ ِ عیسائیت میں موجود بہت سے اہم سوالات پر نہ صرف توجہ دِلاتا ہے بلکہ بہت سے مسائل کا اپنے تئیں ایک بہتر حل بھی تجویز کرتا ہے۔ قرآن، دورِ مکہ میں یہودی اور عیسائی عقیدے کی مخالفت نہیں کرتا ، بلکہ کچھ علما کے مطابق تو قرآن ابتدا میں یہودیت اور عیسایت سے ہٹ کر کوئی منفرد پیغام بھی دیتا نظر نہیں آتا نہ ہی ابتدا میں کسی نئے دین کی بنیاد اہم موضوع رہی ہوگی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے ابتدائی ایام میں ، مسلمان اپنی کوئی منفرد شناخت یا الگ پہچان کی تلاش میں بھی نہیں تھے ۔ اِس کے سِوا زیادہ توجہ توحید اور آخرت پر ایمان کے ضمن میں نظر آتی ہے ، ایک ایسی آخرت کا تصور جو کسی لمحے بھی وارد ہو سکتا ہے، بلکہ جس کا ورود قریب تر ہے ۔ اِس کے سوا ابتدائی مکی آیات کی طرح اخلاقیات کے موضوع زیرِ عنوان لائے گئے جیسا کہ یتیم و مساکین کے ساتھ حسن سلوک وغیرہ۔ لہذا اِن ابتدائی آیات میں کسی الگ دین کی ضرورت یا اُس کی ترویج کا اندیشہ محسوس نہیں ہوتا۔ شاید اِس لیے کہ مکہ میں مسلمان اِس حد تک مضبوط نہ تھے بلکہ اُن پر تو ظلم و ستم ڈھائے گئے تھے۔ اُس دور میں قرآن یہود و نصاریٰ کی مخالفت کی بجائے اُن کے ساتھ ایک برادرانہ
2
ہم آہنگی کی فضا میں نظر آتا ہے۔ سورت مریم بھی اِسی وسطی مکی دور میں نازل ہوئی ہے۔ سٹوش کا کہنا ہے کہ سورت مریم میں ، پیغمبر اور بی بی مریم ایک سی صورتِ حال میں مماثل نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جس طرح کی ذہنی اور روحانی واردات سے دوچار ہوتی ہیں ، وہ ہمیں رسولِ خدا پر کیے گئے سماجی طعن و شتم کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں ۔ مگر ہمیں قرآن کے دور کے نصاریٰ پر بات کرنے کے لیے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کون کون سے عیسائی فرقے موجود تھے۔
ایسا کرنے میں ہم ترتیبِ نزول پر موجود مسلم حواشی اور آیات کی لفاظی اور طرزِ بیان پر بھی توجہ دیتے ہیں ۔
اسمِ الرحمٰن : خدائے باری تعالیٰ کی مشروط اور غیر مشروط رحمت کا بیان ہے ، جسے ہم انجیل سے بھی جان سکتے ہیں، ، وہی غیر مشروط رحمت ہے جس کا بیان متّی کے باب پنجم میں کیا گیا ہے ، “کہ خداوند باپ اپنے سورج کو نیک و بدکار دونوں پر چمکاتا ہے اور اُس کی (رحمت کا ) میِنہ رست و ناراست دونوں پر برستا ہے۔ یہ اللہ کی غیر مشروط رحمت ہے جس سے مخلوقات وجود پاتی ہیں اور فیض یاب ہوتی ہیں۔ لیکن جہاں تک گناہوں سے مغفرت یا آخرت میں بخشش کا معاملہ ہے تو وہ ایک مشروط رحمت ہے ، جس واسطے ہمیں خدا سے معافی مانگنا پڑتی ہے، اور سٹوش کے مطابق مَرسی(Mercy)، یا رحمت کا معنیٰ یہ بھی ہے کہ رحمت کا طلبگار اپنے دل کے دروازے بھی خداوند کی طرف سے آنے والی رحمت کے حصول کے لیے کھولے، اُس کا دل کا تنگ نہ ہو، اِس کا اشارہ رحم دل باپ اور اُس کے کھوئے ہوئے بیٹے کی روایت (Luke 15:11-32) میں مل جاتا ہے، تو باپ رحم دل ہے اور معاف کرتا ہے لیکن اگر کھویا ہوا عبد، بیٹا واپس ہی نہ آئے تو باپ غفار ہونے کے باوجود معاف نہیں کر سکتا، اور اِس پر تائب ہونے اور لوٹ آنے پر قرآن ِ کریم میں زیادہ اصرار کیا گیا ہے۔ بلکہ ایسی دو آیات ہیں کہ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کیا کہ وہ ہمیشہ بخشنے والا اور رحمن ہوگا۔ (کتب علی نفسہ الرحمة)، اور یہ بھی انتہائی دلچسپ بات ہے کہ مکہ کے وسطی دور تک خداوند کو الرحمٰن کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔ کتاب میں دوسرا اہم موضوع عیسی اور یحییٰ کی پیدائش کے معاملات میں بھی ایک دلچسپ مشابہت پائی جاتی ہے۔ دونوں کی پیدائش کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنابِ زکریا اللہ سے نشانی مانگتے ہیں جبکہ مریم سوال نہیں کرتیں اور مِن و عن رضائے خداوند میں نظر آتی ہیں،
3
ایک کے ہاں ارزل عمر میں بچے کی پیدائش اور دوسری باکرہ کنواری مریم کے ہاں بچے کی پیدائش مافوق العقل واقعات ہیں ۔ اِس ضمن میں ذیشان [1] کی تحقیق ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ اُس دور میں پاپائے کلیسا ، عیسیٰ کو یحییٰ پر فوقیت دیتے تھے، کہ اُن کے نذدیک ایسا کرنا کلیسا کو بنی اسرائیل پر فوقیت دینے کے مترادف تھا۔ کہ جنابِ یحییٰ کا دنیا میں ظہور ہونا یہود کے معبد میں کشیشِ اعظم (high priest) کے گھر بچے کی پیدائش تھی، جنابِ زکریا کی آرزو کہ جیسا سورت مریم میں بیان فرمایا گیا (يَرِثُنِىْوَيَرِثُمِنْاٰلِيَعْقُوْبَ ۖ وَاجْعَلْـهُرَبِّرَضِيًّا (6) اٰلِ یعقوب کے لیے وارث کی خواہش کا اظہار ہے، Neuwirth بھی اِسی تاویل سے اتفاق کرتی ہیں ۔ جبکہ اکثر علما اِس تشریح سے پرہیز کرتے ہیں اور واقعے کو سطحی انداز سے سمجھتے ہیں کہ زکریا کے ہاں بچہ نہیں تھا اور وہ بوڑھے ہو چکے تھے، حال آں کہ آیت اُن کی خواہش کا اظہار اٰلِ یعقوب کے لیے وارث کی تمنا میں کرتا ہے۔ اور ایسی دعا وہ ایک پادری کے طور پر کر رہے ہیں ، اور وہ اپنے علاوہ اٰلِ یعقوب یعنی بنی اسرائیل کے لیے بھی فکر مند نظر آتے ہیں ۔ سٹوش بین السطور اِس بارے بھی متوجہ کرتا ہے کہ پاپائے کلیسا کے لیے سب سے اہم بات یہی تھی کہ زکریا شہید ہو گئے اور یحییٰ کے بارے بھی یہی کہ وہ قتل کر دیے گئے[2]۔ لہذا ، جب زکریا اور یحییٰ نہیں رہے تو کلیسا کے پادریوں کے نزدیک، دونوں کی وفات کرنا، اٰلِ یعقوب کی وفات کے مترادف ہوا، اور کلیسا اٰلِ یعقوب کا متبادل بلکہ افضل قرار پائی۔ یہ ایک روایتی خیال ہے۔ اِس بارے دوسری اہم واقعاتی شہادت سرزمینِ قدس پر ساسانیوں کی فتح ہے کہ دونوں بڑے پروہتوں کے انتقال کے بعد یروشلم یہودی نہیں بلکہ عیسائی نظر آتا ہے۔ پاپائے کلیسا تب تک یہی دلیل اور واقعاتی شہادت دیتے چلے آئے تھے ۔ یہ سورت مبارکہ سِن ۶۱۵ یا ۶۱۶ عیسوی کے مطابق نازل ہوئی، یعنی محاصرہ ِ القدس اور ایرانیوں کی فتح کے ایک سال بعد، اور عیسائیوں کے مفتوح ہونے کے بعد جب یہودی مسیحا کے انتظار میں معبد کی تیسری تعمیر کرنا چاہتے تھے،۔ پاپائے کلیسا کا یہی کہنا تھا کہ ہم مستحکم ہیں .
[1] ذیشان غفار کا کہنا ہے کہ یہودیت اور عیسایت میں موجود وہ قربِ قیامت اور نزولِ مسیحا کی علامات کہ جن میں معبد، معبد کا مشرقی دروازے سے مسیحا کا ظہور وغیرہ شامل ہیں ، قرآن اُن کا استعمال کرتا ہے، اُنہیں رد کیے بغیر اُنہیں نئے پیرایے میں ڈھالتا ہے۔ قرآن مریم کی بکارت کو جھٹلاتا نہیں ہے، اور نہ ہی مشرقی دروازے بارے کوئی ایسی معلومات دیتا ہے جو مسیحی یہودی تصور کے مطابق یا منافی ہوں۔ قرآن کے لیے اہم یہی ہے کہ عیسیٰ کی پیدایش کے وقت مریم کنواری باکرہ تھیں، اور بعد میں کہیں یوسف بڑھی یا کسی اور شخص کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اگر قرآن مریم کی بکارت کو مسخ کرنا چاہتا تو بہت آسان تھا لیکن اِس کی بجائے قرآن مسیحی استعاروں کی تکریم کرتا ہے اور اُنہیں ایک ایسے بیانیے میں ڈھالتا ہے کہ جس سے وہ یہود دشمن (anti jewish)نہیں رہتے۔فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِـهِـمْ حِجَابًاۖ یعنی پردے کا ذکر ہے جس کی چاکی مسیحا کی آمد کی علامت ہے(Matthew 27:51)، اور ، مریم کی پاک بازی کا ذکر ہے، معبد کا اور مشرقی حجرے کا، لیکن مفاہیم میں متکلمین کے لیے جدت کا اُسلوب ہے۔ دیکھیے Ghaffar, Zishan Ahmad. “Kontrafaktische Intertextualität im Koran und die exegetische Tradition des Syrischen Christentums.” Der Islam 98, no. 2 (2021): 313–58.
[2] دیکھیے Protoevangelium of James, The Apocryphon of John
4
اور خداوند ہمارا طرفدار ہے۔ اِس صورتِ حال کے بر خلاف ، قرآن ایک زندہ اور جیتے جاگتے زکریا کا حال بیان کرتا ہے جس کا خدا کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ خداوند زکریا کی مناجات کا جواب ایک بچے کی پیدائش کی صورت میں دیتا ہے جس کا نام بھی خدا خود تجویز کرتا ہے ، یحییٰ ! جس کا معنیٰ ہے “ زندہ ہونے والا” ۔سٹوش کے مطابق قرآن کا یوں بیان کرنا اٰلِ یعقوب کی زندگی کا استعارہ ہے ، کلیسا نے اٰلِ یعقوب کا مقام و مرتبہ نہیں چھین لیا۔ یہ پاپائے کلیسا کی مذہبی اجارہ داری اور روحانی برتری پر قرآن کا اعتراض ہے۔ قرآن کے نذدیک عیسیٰ اور یحییٰ میں کسی کو بھی دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ جبکہ سٹوش اِس بارے اصرار کرتا ہے کہ جنابِ عیسیٰ اور یحییٰ کے کرداروں میں ایک واضع فرق موجود ہے اور وہ اہم فرق ہے، کہ عیسیٰ نے خود فرمایا کہ میں خدا کا بندہ ہوں ،قال اِنِّـىْ عَبْدُ اللّـٰهِۖ (۱۹:۳۰)، (I am)اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جس پر عیسایت توجہ دلانا چاہتی ہے ، آپ انجیلِ یوحنا سے وہ ساری آیات نکال کر دیکھیں جن میں عیسیٰ نے کہا کہ میں ہوں! [1]
یہاں یہ ایک اہم سوال ہے کہ اناجیل میں مسیح کے بارے سب سے اہم عنوان اُن کا خدا کا بندہ ہونا ہی ہے[2] ۔ اِس پر مستزاد یہ کہ “ میں خدا کا بندہ ہوں” ، شاید علمِ مسیح شناسی کی سب سے اہم تلخیص ہے۔ اور یہ آپ پنگھوڑے میں کہہ رہے ہیں۔ اِس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی بچہ یوں کہہ سکتا ہے؟ اور رسالت کے شعبہ میں ایسا ہونا ممکن نہیں کہ وہ ایک عمر کے خاص حصے میں رسول چنے جاتے ہیں جبکہ عیسیٰ کے معاملہ میں اُن کی پیدائش اور وفات یا زندہ اُٹھایا جانا، ہر دو صورتوں میں اُن کی زندگی ایک آیت، اور خدا کی رحمت کی ایک نشانی کے طور پر قبول کیا گیا۔ اِس سے بڑھ کر علمِ مسیح شناسی کی تعریف کیا ممکن ہو گی۔ اُن کا کلام، پیغام بلکہ ہر ہر جنبش و سکوت سب کے سب خدا کی نشانی ہیں۔ اِس سے بڑھ کر جامع اظہار ممکن نہیں ۔ جدید حلقہ جامعات میں ہم literal انداز سے اِس معجزے کو نہیں دیکھ سکتے، کیوں کہ ہمیں جیسا کہ قرآن عمومی طور پر وہی معجزات بیان کرتا ہے کہ جن کی عقلی توجیہ ممکن ہو سکے، ایسے میں ہم عیسیٰ کے پنگھوڑے میں کلام کرنے کو کیسے بیان کر سکتے ہیں ۔ ایسے میں ہمیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن میں ایک تھوڈیسی کا مسئلہ ہے ، کہ صرف عیسیٰ نے ہی کیوں پنگھوڑے میں بات کی، باقی بچوں کو یہ صفت کیوں کر حاصل نہیں ہے ، وغیرہ۔ ایسے مسائل سے بچنے کے لیے ، ہم natural law and free will
[1] The “I am” the bread of life (John 6:35), the light of the world (John 8:12), the door (John 10:7), the good shepherd (John 10:11, 14), the resurrection and the life (John 11:25), the way the truth and the life (John 14:6) and the true vine (John 15:1۔(
[2] Philippians 2:7
5
defense پر بات کر سکتے ہیں ۔ تو ایسے میں ہمیں اِس واقعے کو ایک استعارے کے طور پر سمجھنا زیادہ معقول ہوگا۔ یوں یہ واقعہ جدید الٰہیات کے علوم میں زیادہ مطابقت رکھ سکتا ہے کہ مریم بہت سے اندیشوں میں مبتلا ہیں اُنہیں اُن کی بستی کے لوگ جان سے مار سکتے ہیں، کیوں کہ یہود کی شریعہ میں ایک ناجائز بچے کے ساتھ کنواری مریم کا آنا اُن کے لیے رجم کی سزا تجویز کرتا ہے ۔ مریم کا کوئی خاوند نہیں اور یوسف بڑھی کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں۔ سو مریم صحرا سے بچے کے ساتھ آتی ہیں اور بستی والوں کو اگر کہتی کہ یہ بچہ خدا کی طرف سے آیا ہے تو کوئی بھی اِس بات کا یقین نہ کرتا اور اُنہیں رجم کر دیا جاتا۔ اِس پر خدا مریم کی قوت ِ گویائی بھی سلب کر لیتا ہے کہ اُنہیں بولنے کی اجازت نہیں ۔ ایک ہی چارہ بچتا ہے کہ بچے ہی دفاع کرے، عقل پرست متکلمین اِس کی توضیح یوں کرتے ہیں کہ نومولد بچے کا بستی والوں پر ایسا تاثر پڑا کہ اُن لوگوں نے اُس میں قدسیت کو محسوس کیا۔ لوگوں کو اُس فضا میں اُلوہیت اور برکت محسوس ہوئی ، یوں عیسیٰ اپنی پیدائش کے وقت سے خداِ باری تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے۔قرآن مریم اور مسیح، دونوں کو اپنی رحمت کی نشانی بتاتا ہے۔ قرآن اٰلِ یعقوب اور کلیسا کو ایک دوسرے پر برتری نہیں دیتا اِس کے باوجود عیسیٰ کو یحییٰ پر فوقیت دیتا نظر آتا ہے۔ قرآن ایسی زبان کا اُسلوب اختیار کرتا ہے کہ ہم عیسیٰ کی فوقیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ قرآن کے مخاطبین صرف راسخ العقیدہ عیسائی نہیں ہیں بلکہ وہاں خطے میں موجود شنیدہ تمدن کے حامل بھی ہیں، اُس زبانی کلامی روایت میں لوقا، متی، مرقس کی اناجیل کے علاوہ غیر مطبوع اناجیل اور اساطیر بھی شامل ہیں۔ اِس نتیجے پر ہم یوں پہنچے کے کچھ ایسی روایات کہ جن پر قران بات کرتا ہے ہمیں عیسایت میں کہیں بھی نظر نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر عیسیٰ کا پنگوڑھے میں کلام کرنا، ایسی بات ہے کہ جس کا ذکر اناجیل ِ اربعہ میں موجود ہی نہیں۔ یا اِسی طرح عیسیٰ کا مٹی کے پرندے بنا کر اُن میں روح پھونکنا ، ایسی آیات ہمیں انجیلِ مقدسہ میں نہیں ملتیں ۔ یہ گوسپل آف انفنسی میں ملتا ہے لیکن ۔ اگرچہ یہ بات اسکالرز کے لیے حیرانی کا باعث ہے کہ یہ موضوعِ قرآن کیوں کر بنے، کہ ایک انسان(عیسیٰ) کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ مٹی کے پروندوں کو زندگی دے دے، یہ تو خدا کرتا ہے۔ سٹوش کا کہنا ہے کہ یہ مرکزی کہانی ہے جو عیسیٰ کی اُلوہیت پر دلیل ہے۔ مَروجہ اناجیل میں اِس واقعے کے نہ ہونے کے باوجود قرآن کا اِس پر بات کرنا علمِ مسیح شناسی کی بنیاد ہے۔ عیسیٰ سے معجزات کا ظہور بلاشبہ خدا تعالیٰ کے اِذن سے ممکن ہوا ، اِس پر عیسائی بھی ایمان رکھتے ہیں، لیکن کسی کو زندگی بخشنا یہ تو سراسر اُلوہی چیز ہے۔ اِس پر یہ بھی اہم ہے کہ لزارس کا واقعہ اگرچہ تفصیل سے قرآنِ کریم میں موجود نہیں، لیکن وہ ایک انسانی لاش تھی، ایک بے جان چیز کو زندگی بخشنا شائد اُس سے بھی اہم واقعہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی وضاحت طلب ہے
6
کہ قرآن میں عیسیٰ کے معجزات کے ساتھ باذن اللہ کا اضافہ، حاخامی ادبیات (Rabbinic literature) میں عیسیٰ کو ایک ساحر کہے جانے سے ممتاز کرنے کے لیے تھا۔ کہ عیسیٰ ہرگز یہودیوں کے مطابق یوشوع ساحر نہیں تھے۔ جبکہ یہودیوں کے مطابق جیسا کہ اِستثنا ۲۱:۲۳ میں سزا تجویز کی گئی ہے، عیسیٰ کو مصلوب اِسی جرم ِساحری میں کیا گیا۔ چنانچہ خدا کے نام کے بغیر متحیر العقول کام کرنا ہی ساحری کی تعریف ہے۔اِسی لیے قرآن عیسیٰ کا حاخامی ادبیات کے مقابل دفاع کرتا ہے۔ یہاں لفظ اِذن بھی کئی معنیٰ میں استعمال ہو سکتا ہے، کہ خدا کی اجازت سے یا خدا کی مدد سے؟اِس ضمن میں سٹوش کو لفظ پرمِشن یا اجازت ایک طرح کی قانونی اصطلاح محسوس ہوتی ہے جبکہ وہ مدد و معاونت کے فعل کو زیادہ موزوں سمجھتے ہیں۔
محمود ایوب کہا کہنا ہے کہ لفظ وَلد کو Literal اور اِبن کو Metaphorical سمجھا جانا چاہیے، محمود ایوب کا کہنا ہے کہ مشرکینِ مکّہ عیسیٰ کے لیے “ولد “ کا استعمال کیا کیے جبکہ دیگر عیسائیوں میں اِبن اللہ کی اصطلاح رائج تھی۔ عیسیٰ کو خدا کا جنا کہنا کہ جس کی آیت ۳۵ میں نفی کی گئی ہے کہ آیت مشرکین ِ مکّہ کو مخاطب کرتی ہے جو عیسیٰ کو اللہ کی بیٹیوں (لات، عزیٰ اور منات) کے ساتھ ساتھ بیٹا قبول کرنے پر تیار تھے۔ جبکہ عیسائی ، مسیح کو استعارے میں ابنِ اللہ کہتے ہیں، حال آن کہ عیسائی نہ صرف استعارے(metaphorical) بلکہ مابعد الطبعاتی (metaphysical) معنیٰ میں صرف مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں نہ کہ حیاتیاتی (Biological)معنی میں[1] ۔ حیاتیاتی سطح پر یہ ناقابلِ فہم ہے کہ عیسائی خدا کے بچوں پر یقین رکھیں۔
یہ سوال سورت زخرف میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ، کہ مشرکین مکہ کہتے ہیں کہ کون سے خدا بہتر ہیں ، دونوں سورتوں کے مخاطبین اور زیرِ بحث موضوع میں ایک ربط اور تعلق موجود ہے۔ کیوں کہ مخاطبین کے بارے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اُن کے نزدیک عیسیٰ خدا کی باقی اولاد کے ساتھ ایک ولد ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہاں موجود عیسائی ایسے عئسائی نہ ہوں جیسا ہم آج عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور اُن میں کوئی باہم رقابت ہے۔
ہیرودیس(Herod)
[1] In Greek mythology, Heracles (son of Zeus) and many other figures were considered to be sons of gods through union with mortal women. From around 360 BC onwards Alexander the Great may have implied he was a demigod by using the title "Son of Ammon–Zeus
7
سورت اسریٰ ۱۱۱ میں ایسا کہنا کہ خدا کو کسی کمزوری یا محتاجی کے سبب دوستوں کی ضرورت ہے۔ ہم یا کوئی عیسائی بھی ایسا ہرگز نہیں سمجھتا کہ خدا کو کسی محتاجی یا کمزوری کے سبب دوستوں کی ضرورت ہے۔ اور اُن کے مابین کوئی رقابت موجود ہے۔
ایسا کسی تصورِ خدا اُس عہد کے کسی بھی مسیحی عقیدے میں موجود نہیں ہے اور اپنے سیاق (context) میں بھی یہ آیات کسی بھی طرح عیسایت کی تردید و تنقید نہیں ہیں۔ سورة اخلاص بھی جیسے کہ کیا جاتا ہے کہ مکی دور میں نازل ہوئی ، اور علما نے اِسے عیسایت کی اور بالخصوص عقیدہِ نیقیہ (Nicene Creed) کا رَدّیہ سمجھا۔ تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ سورت اخلاص عیسائیت کے خلاف ہو؟ جبکہ خدا کے بارے شرک اور اولاد کے موضوع والی آیات کے مخاطبین مشرکینِ مکہ ہیں! اور اگر سورت مکہ میں نازل ہوئی ہے تو سٹوش کے مطابق مخاطبین وہ لوگ ہیں جو خدا کے بیٹے اور بیٹیوں کے ہونے کو قبول کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خدا اکیلا ہے اور اُسے اِس لیے رفیق چاہیں۔ چانچہ قرآن، عقیدہ مسیحیت کے مخالف نہیں بلکہ اُن مشرکین کے مخالف ہے جن کے تصورات میں عیسیٰ بھی خدا کے جنے بیٹے کی صورت میں موجود تھا۔ اِس روایتی تصور کے برخلاف سٹوش کا ماننا ہے کہ سورت اخلاص مسیحیت مخالف(anti christian) نہیں ہے۔
قرآن کا کسی شے بارے خاموشی اختیار کرنا اُس شے پر تنقید کرنے کے مترادف نہیں ہے ، لہذا اگر تعریت کی طرح قرآن میں خدا کو باپ نہیں کہا گیا، تو یہ ہرگز اِس بات کے متراف نہیں ہے کہ خدا اپنے آپ کو باپ کہلوانا پسند نہیں کرتا یا یہ کہ خدا باپ کہلائے جانے کے منافی ہے۔ البتہ مسلم روایت میں قرآن احتیاط برتتا ہے اور ایسا کوئی بھی استعارہ خدا کے شایان نہیں سمجھتا کہ جس سے کسی قسم کی کوئی انسانی تشبیح ممکن ہو۔
سٹوش کو یہ باب لکھنے میں بہت سی دقت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اور یہی بات انگریزی ترجمہ میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ انہیں بعد ازاں علم ہوا کہ بہت سے نظریات مِن و عن نقل نہیں ہو سکے تھے۔ ایک اضافی مضمون حال ہی میں شائع کیا گیا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ نوائےوڈ ، محمود ایوب کی طرح وہ اِس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ مکہ میں نصرانی موجود نہیں تھے۔