Skip to content

The Gospel of Philip the Apostle (Extract Trans.)

جو فالیب نے کہا:
ایک بت پرست کبھی نہیں مرتا کیونکہ وہ جیا ہی کب تھا ، سو اُس کی موت پر کیسا دکھ ؟ غم تو اُنکے مرنے کا ہے جنہوں نے سچ کو تسلیم کیا تھا، وہی تو ( حقیقی معنوں میں ) جینے لگے اور انہی کے مرنے( یعنی گمراہ ہونے ) کا اندیشہ ہے کیونکہ وہ جینے لگے تھے !
۱۰۔ اندھیرا اور اُجالا، زندگی اور موت، داہنا اور باہنا یہ تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں ناقابلِ تقسیم ہیں، اسی لیے ان ( یعنی لوگوں ) کے مابین درست درست نہیں ہے اور غلط غلط نہیں ہے اور ان کی زندگی زندگی نہیں ہے اور نہ ہی ان کی موت موت ہے چنانچہ(کھوجنے والے) آدمی کو ان کے مابین اپنے تئیں فرق کرنا ہوگا اور پھر جنہوں نے خود کو دنیائی ( کی اس تفریق اور تضاد ) سے علیحدہ کر لیا وہ ابدی ہو گئے۔
۱۱۔ دنیاوی اشیاء کے ساتھ اہمیت( اور چاہت) کو جوڑنا بہت بڑا دھوکہ ہے، کہ وہ ہماری سوچوں کو منتشر کرتا ہے، اس ایک(خدا) کو جو کہ دائمی ہے اس سے کہ جو عارضی ہے ( سے جوڑنااور منسوب کرنا )۔ اور اس معاملے میں جو بھی کوئی خدا کے بارے سنتا ہے (ابدیت کو)سمجھ نہیں پاتا چونکہ وہ عارضی کے بارے سوچتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ، باپ ، بیٹا ، مقدس روح، زندگی ، روشنی، نور اور دوبارہ جی اٹھنے کے الفاظ میں مضمر ابدیت نہیں جان پاتے بلکہ وہ عارضی (دنیا) کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں ، (ایسا ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ وہ ابدیت کو جان لیں (اس زندگی میں) ورنہ یہ الفاظ ( اور آیتیں ) گمراہی ہیں دنیا داروں کے لیے!
۱۲- ایک نام جو دنیاداروں میں نہیں لیا جاتا، وہ نام جو باپ(خدا) نے اپنے بیٹے(عیسیٰ) کو دیا، وہی نام جو (سب ناموں سے)بر تر ہے۔ یہ نام باپ یعنی (خدا) خود ہے۔ بیٹا(عیسیٰ) کبھی یہ نام نہ لیتا اگر وہ باپ (خدا) نہ بن گیا ہوتا۔
جو یہ نام رکھتے ہیں، جانتے ہیں لیکن وہ اس کی بابت گفتگو نہیں کرتے۔ لیکن وہ جو یہ نام نہیں پاتے اسے نہیں جانتے۔
اس دنیا میں نام رکھے گئے کیونکہ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حق کو پہچانا جاتا۔
حقیقت ایک ہے ، لیکن اس کی موجودگی کثرت میں ہے، ایسا ہمارے لیے ہے کہ ہمیں ہر شے کی معرفت سے اس ایک کی پہچان ہو۔
وہ لوگ جو خود سے خدا(باپ) کو نہیں جانتے وہ اس کے اوتار(بیٹے یعنی عیسیٰ) کو دیکھنے اور پہچاننے کے قابل نہیں ہیں۔ اور اگر بیٹا ان سے اپنی خدا (باپ) سے وحدتِ ماہیت کی بات کرنے کی کوشش کرے ، تو ایسے لوگ صرف اس سے غصّہ ہوتے ہیں۔
۱۴۔ … جب قربانی کی جاتی تھی اگرچہ جانور زندہ پیش کیے جاتے تھے، لیکن وہ مر گئے ، مگر وہ جس نے خود کو خدا کے حضور مردہ پیش کر دیا یقیناً وہ جیے گا ! ۱۵۔ عیسیٰ کے آنے سے پہلے آسمانِ بالا کی خوراک زمین والوں کو میسر نہ تھی۔ بالکل اُسی طرح جیسے جنت میں آدم کے لیے درخت تو بہت تھے، جانوروں کے لیے خوراک بھی تھی لیکن انسان کی خوراک گندم نہیں تھی ، انسان خود کو جانوروں کی طرح درختوں پر پالتا تھا۔ لیکن ، جب عیسیٰ یعنی انسانِ کامل آتے ہیں وہ آسمانِ بالا کی روٹیاں لاتے ہیں تاکہ لوگ انسانوں والی خوراک کھا سکیں۔
۱۶۔ دنیا کے حاکموں نے سوچا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا اپنی طاقت اور خواہش کے سر پر کیا ، لیکن حقیقت میں مقدس روح نے ان کے ذریعے مکمل کروایا، جیسا بھی اس نے مناسب سمجھا۔
اور انہوں نے ہر طرف سچائی کے علم کو بویا جو ابتداء میں موجود تھا۔ اور بہت سے لوگوں نے اسے بیجائی کے دوران دیکھا بھی، لیکن چند ایک ہی صرف اسے کاشت کے وقت پر یاد رکھ سکے ۔
۱۷۔ روح ِ مقدس لوگوں کے افعال کو اپنی چاہت کا رستہ دیتی ہے لیکن لوگ یہ نہیں جانتے، خاص طور پر وہ شریر اور فاسد لوگوں کے ذریعے سے دوسرے لوگوں کے لیے وساوس اور فتنوں کے بہکاوئے کی آزمائش میں ڈال کر ان کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے جیسا کہ غلط عقائد اور نظریات کی مثال سے ! یہ صرف حوصلہ اور جسامت رکھنے والے لوگوں کی شعوری بڑھوتری کے لیے کیا جاتا ہے ۔ آخر وہ یہاں سیکھنے کے لیے بھیجے گئے ہیں نہ کہ صرف رہنے کے لیے ..
زمین پر ہماری زندگی کا مقصد اپنی ذات کی تطویر یعنی خودی کی نمود ہے، جسےعقلی ، اخلاقی اور شعوری قوتوں کی تین درست سمتوں میں جانا چاہیے اور ہمارا استاد خدا ہے ۔
کامیاب طلَبَہ اس مکتب سے فارغ ہونے پر خدا(باپ) کے یہاں مدعو کیے جاتے ہیں اگر وہ اہلیت رکھتے ہیں ، اس میں ہمیشگی کے جذب اور وصال کی۔ جبکہ دیگر طلاب ہمیشہ کے لیے دُہرا ئی کرتے ہیں اور دنیا کے غلام بن جاتے ہیں ۔
۱۸۔ آقا نے غلاموں سے (عیسیٰ نے حواریوں سے) کہا : خدا کے گھر میں داخل ہو جاؤ، لیکن اس کے گھر میں کچھ لے کر نہ جانا نہ ہی کچھ وہاں سے لے کر آنا۔
۱۹۔ عیسیٰ کیا ہے، وہ جو حق کی طرف سے آیا ، جس نے حق سے وصل پایا اور اس میں شامل ہو گیا پھر ایک الوہی استاد کی صورت میں زمین پر اترا اور خدا کا جوہر لایا، عیسیٰ ایک ہی تھا لیکن تاریخِ انسانی میں کئی عیسیٰ آئے..
۲۰۔ عیسیٰ اپنے آپ میں کامل ہے، ملکوتی اور ناسوتی بلکہ اس سے بھی پراسرار اور اپنے باپ(خدا) کے ساتھ بھی ۔
۲۲۔ کوئی بھی بیش قیمت چیزیں بڑے مرتبانوں میں نہیں چھپاتا بلکہ ہمیشہ ہی بیش بہا خزانےایسے مٹکے میں رکھے جاتے ہیں جس کی قیمت ایک پائی بھی نہیں ہوتی ۔ روح کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، ایک نادر شے ہونے کی وجہ سے اسے ایک خسیس اور مہین جسم میں رکھا جاتا ہے! ملحد اور بہت سے ایسے جو خود کو ایمان والے کہتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ انسان جسم ہے لیکن حقیقت میں انسان روح ہے ایک آگاہی ، شعور اور احساس ہے اور جسم محض ایک عارضی ظرف (برتن، مٹکا)ہے جس میں سے انسان کو ، مادی دنیا کے مکتب میں اگلے درجے کے علم کے حصول کے لیے گزرنا ہوتا ہے ۔
لوگوں کی مجسم حالت، عام طور پر ان کی غیر مجسم حالت کے مقابلے میں، زندگی کا بہت مختصر دورانیہ ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود انسان کی نمود صرف اس کی مجسم حالت میں ہی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانیت ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ خدا عالمِ مادی کو تخلیق کرتا ہے ۔
نکتہ یہ ہے کہ جسم طاقت (نور) کو بدلنے کا ایک کارخانہ ہے۔ جسم میں طاقت کشید کی جاتی ہے، سب سے پہلے معمولی کھانے سے شعور کے لیے طاقت بنتی ہے اور پھر شعور سے روح کے لیے ۔ اسی عمل کے مرہونِ منت ہے کہ شعور کی کیفی( ماہیتی) اور مقداری بڑھوتری ہو پاتی ہے ۔
۲۳۔ یاد رہے کہ خدا کے مسکن میں نہ تو گوشت نہ ہی خون داخل ہو سکتے ہیں، تو وہ کیا ہے جو اس میں داخل ہو گا وہی (روح)جو ہم پر (حاکم)ہے ۔
اور در اصل خدا اور ارواح جنس نہیں رکھتیں کیونکہ جنس گوشت پوست کے جسم کے لیے مختص ہے ۔ کسی بھی درجے کا ترقی پاتا ہوا شعور(دھور) ہستی میں موجودگی رکھنے والی ایک طاقت ہے۔ یہی انفرادی شعور خدا کے مسکن ( ذات) سے متحد ہو کر بقا پاتا ہے تاہم وہ پھر شخصیت کی صورت مخلوق میں کوئی خاص نوعیت کا فریضہ انجام دینے کو علیحدہ ہو سکتی ہیں ۔
روحیں پھر سے اپنا تشخص ، خصائل اورجملہ عادات حاصل کر لیتی ہیں جو کہ گزشتہ جنم میں رکھتی تھیں ۔ لیکن وہ قوت اور روشنی کے ایک بگولے میں بھی بدل سکتی ہیں یا کسی دوسرے کی طرح کی شکل لے کر مجسم انسانوں سے کلام کر سکتی ہیں…
۲۶۔ مسیح نے لوگوں کے دلوں کو اپنی حقیقت ِ ماہیت ظاہر کیے بغیر فتح کیا۔ ہر کسی پر اس نے خود کو اتنا ہی ظاہر کیا جتنا وہ سمجھ رکھتے تھے ۔ اس نے ایسا اس لیے کیا کہ عظیم کو وہ عظیم ، چھوٹے کو چھوٹا نظر آئے، فرشتے کو فرشتہ اور بشر کو انسان کے طور پر اسی دوران اس کی اُلوہیت سب سے پوشیدہ تھی جبھی کچھ نے جب اس کو دیکھا تو اپنے جیسا ہی انسان سمجھا ..لیکن جب اس نے اپنے آپ کو اپنے حواریوں پراپنی مکمل شان کے ساتھ کوہِ زیتون پر ظاہر کیا..اس وقت وہ معمولی نہیں تھا بلکہ نہایت عظیم تھا! لیکن ایسا کرنے سے پہلے اس نے اپنے حواریوں کو معظم کیا تھا تا کہ وہ اس کی عظمت پر شہادت دے سکیں !
خدا نے روحوں کو جب مجسم کیا تو ان کے جسم ان کی روحوں کی عمر اور تجربے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے اسی سے ان کا مختلف مدارج کی پیچیدہ معلومات کی فہم کا معیار ٹھہرتا ہے۔ یہ کسی حد تک جسم کی عمر، بڑھوتری کے انداز، تعلیم اور ایسی دوسری چیزوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے ۔ روحیں کتنے ہی جنم لینے کے بعد بلوغت پاتی ہیں یہی ہے جو فالیب نے بتایا !
اور ۲۷۔ کوئی بھی خدا کی شاہی میں قدم نہیں رکھ سکتا جب تک کہ وہ برہنہ نہ ہوجائے ..
۲۸۔ آسمان کا آدمی زمینی انسان سے زیادہ بیٹے رکھتا ہے، اگر آدم کے بیٹے بہت ہوں تب بھی وہ مر جاتے ہیں، کتنے ہی انسانِ کامل کی اولاد ہیں جو کبھی نہیں مرتے اور بار بار جنم لیتے ہیں انسانِ کامل کی شکل عیسیٰ ہے اور اس کی تعلیمات اور حواری ہیں جو زمین پر رہے اور جن کی روحانی اولاد بڑھتی رہی، وہ جو اپنے خدا(باپ) کے گھر میں بقا پا گئے۔
۳۱۔ وہاں کچھ ایسے ہیں جو اِس منہ سے پرورش پاتے ہیں کہ جب اس میں سے خدا کے کلمات نکلتے ہیں، اگر ایک اِسی طرح پلتا رہے تو کامل ہو جاتا ہے ۔ کامل کو ہونٹوں کے ایک مس سے جانا جا سکتا ہے اور یوں( ایک اور) کامل (پیدا )ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم بھی ایک دوسرے کو چومتے ہیں کہ وہ برکت (اور فضل ) حاصل کر سکیں، جو ہم میں سے ہر ایک میں ہے۔
ایک کامل استاد اپنے شاگردوں کی پرورش خدا کے اُن الفاظ کے ساتھ کرتا ہے جو اس کی زبان سے جاری ہوتے ہیں پچھلی زندگیوں میں کی تیاری کے ساتھ، شعوری قوت کی بلوغت کو پہنچے شاگرد، استاد کی محبت میں بڑھ کر بیداری پا سکتے ہیں اور پھر زمانے کی اوج پر ہمیشگی پا تے ہیں ..
۳۴۔ ایک دفعہ ایک حواری نے آقا سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو اِس دنیا کی تھی ۔ آقا نے جواب دیا ، اپنی ماں سے سوال کر کہ وہ تجھے وہ دے سکتی ہے جس سے میں ناواقف ہوں !
۳۷۔ جو باپ کی ملکیت ہو وہ بیٹے سے تعلق رکھتی ہے، جب بیٹا چھوٹا ہو تو اسے اس کا عہدہ دار نہیں بنایا جاتا جو اس کے متعلق ہوتا ہے تاہم جب وہ جوبن کو پہنچے، باپ اس کو وہ سب دے دیتا ہے جو اس کا حق ہے .. ایک جسم میں تجسیم ایک نومولود مسیح بھی اپنی تمام الوہی صفات کا اظہار نہیں کر سکتا وہ اسے عطا کی جاتی ہیں جیسے جیسے اس کا زمینی جسم بلوغت کو پہنچتا ہے ۔
۳۸۔ وہ لوگ جو سیدھے رستے سے گمراہی کو پہنچے وہ بھی خدا کی مقدس روح کے امر سے ہی زمین پر پیدا ہوئے پھر وہ بھٹک گئے یہ بھی خدا کے امر سے ہوا ۔ پس دوبارہ اُسی رُوح سے نئے چراغ روشن ہوئے !
۴۰۔ جیسے بہت سے جانور انسان کی تابعداری میں ہیں جیسے گائے ، گدھے اور دوسرے جانور اور وہ جو انسان کے پالتو نہیں ہیں جو آبادیوں سے دور دشت و صحرا میں رہتے ہیں ۔ انسان اپنے تربیت کردہ جانوروں کی مدد سے کھیت میں ہل چلاتا ہے اور اس شکر گزاری میں آدمی اپنے اور اپنے جانوروں کے لیے خوراک مہیا کرتا ہے لیکن اُن کے لیے نہیں جو نافرمان اور درندے ہیں ۔
اسی طرز پر انسان ِ کامل فرمانبرداروں کی مدد سے افعال کرتا ہے اور ان کے لیے وہ سب تیار کرتا ہے جس سے اُن کی نمو میں برکت پیدا ہو اور اسی شکر گزاری میں کہ ہر چیز اپنے درست مقام اور مکان میں ظاہر ہوتی ہے، اچھے اور برے، داہنے اور باہنے کی تمیز آتی ہے ۔جبکہ مقدس روح ہر ایک کی نگہداشت کرتی ہے اور ہر شے پر اختیار رکھتی ہے، ایمان والوں پر ، کفار پر اور ان پر جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ وہ اُن کو ملاتا ہے اور جدا کرتا ہے اس واسطے سے کہ وہ سب دوبارہ طاقت حاصل کریں جب وہ چاہے کہ یہ ضروری ہے ۔
مقدس روح جو خدا کے اِذن سے عمل کرتی ہے مجسم ابدان کی تقدیر کی مطلق نگران اور منتظم ہے۔ ان کی قسمتوں کی عمل پذیری کے لیے روح خاص طور پر خیالات اور خواہشات کو رستہ دکھاتی ہے حتیٰ کہ لوگوں کے بہت سے طبعی اور مادی معاملات کے ہونے کو درست کرتی ہے ، جس کے لیے وہ انسانوں کا ایک دوسرے سے ملنے کو ممکن بناتی ہے۔ پس وہ شاگردوں کو استاد کے گرد اکٹھا کرتی ہے، مجرموں کو ان کی آسامیوں کے ساتھ ، اور وہ جو شریک جنسی کے متلاشی ہوں ان کو ان کے مستقبل کے شریک سے ملاتی ہے اور اسی طرح..لیکن وہ اُسی طریقے سے انسانوں کو جدا بھی کرتی ہے جب ان کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ روحانی ترقی کہ راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔
وہ مومن و مشرک سب کو قابو میں کیے ہوئے ہے، نیک و بد کو اور عارف و جاہل کو، لیکن ہمارے لیے یقیناً یہ سب جاننا آسان اور بہت خوشگوار ہے اور بہت موثر بھی کہ اگر ہم اس کے ایسے شاگرد بن کر سیکھنے لگیں جو روح سے اور اس کے باپ سے محبت کرتا ہو!
ایک مُجّسداستادِ کامل بلاشبہ اپنے پیرو کے لیے موزوں ہوتا ہے کیوں کہ وہ (خواہ مرد ہو یا عورت) ان سے آسان فہم زبان میں بات کرتا ہے ، دوسری جانب یہ زمینی مشن ایسے استاد کے لیے بہت مشکل بھی ہوتا ہے کیوں کہ ایسی دنیا میں جو جہنم سے بدتر ہو جسم لے کر آنے پر اس پر ملعون اور خبیث لوگوں کے حملے بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسی رضامندانہ تجسیم عظیم استاد کی محبت اور قربانی کی تجلی ہے ! ان قابلِ فہم وجوہات کی بنا پر ایسے شیوخ براہِ راست ان کو سیکھاتے ہیں جو ان پر ایمان لائے ہوں ۔
۴۴۔ لافانی اشیاء کا مشاہدہ ممکن نہیں جب تک کہ کوئی جاوداں نہ ہوجائے ۔
حقیقی زندگی کی دنیا میں واقعات ایسے نہیں ہوتے جیسے کہ ناسوتی لوگوں میں جیسے یہ سورج کا ادراک کرتے ہیں حالانکہ یہ سورج نہیں ہیں، یہ آسمان اور زمین کو” وہ” ہوئے بغیر سمجھتے ہیں ۔ لیکن اس دنیا میں جب تم نے کسی شے کا تصور کیا تم وہ ہو گئے ۔سو ، تم نے خیال کیا کہ تم مقدس روح ہو اور تم بن گئے ، تم نے عیسیٰ کو سوچا اور عیسیٰ ہو گئے ..اس دنیا میں تم اشیا کے مخبر ہو لیکن تم خود کو نہیں جان پاتے کیونکہ تم خود کو وہ واحد تصور کرتے ہو کیوں کہ تم وہ بن جاتے ہو جسے تم دیکھتے ہو …
۴۸۔ ایک لعل اگر وہ خاک آلودہ بھی ہو جائے تو بھی حقیر نہیں ہوتا اور اسے معطر جزدان میں رکھنا اسکی قیمت نہیں بڑھاتا ہے کیونکہ یہ ہمیشہ ہی جوہری کی نظر میں قدر رکھتا ہے، ایسے ہی خدا کا اپنے بچوں کے ساتھ تعلق ہے، وہ جہاں کہیں جس حال میں بھی ہوں وہ اپنے باپ کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں ۔
۵۲۔ ایک گدھا جو سنگِ میل کے گرد گھومتا رہے، چاہے اس نے ہزار کوس چل لیا ہو، جب اس کی رسی کھولی جاتی ہے تو وہ اسی جگہ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح لوگ ہیں جو بہت چلتے ہیں لیکن پیش قدمی نہیں کرپاتے۔ اور جب ان پر شام ہوتی ہے تو وہ نہ تو شہر میں پہنچتے ہیں نہ ہی قریہ میں ہوتے ہیں ، نہ تو انہوں نے مخلوق کی معرفت حاصل کی ہوتی ہے نہ ہی روح ِ مقدس کو جانا ہوتا ہے۔ بے ثمر تھیں اُن نکمّوں کی کاوِشیں!
۵۶۔ جب ایک اندھا اور ایک بینا دونوں اندھیرے میں ہوں تو وہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتے ہاں مگر جب روشنی ہو جائے وہ جو دیکھ سکتا ہے وہ روشنی دیکھ لے گا اور اندھا تب بھی تاریکی میں رہے گا۔
۵۷۔ آقا نے کہا مبارک ہیں وہ جو پیدائش سے پہلے بھی حقیقتاً زندہ تھے اور یقیناً وہ جویہاں ایسا جیے جیسے کہ وہ پھر ہونگے!۔
۶۲۔ جسم سے نہ تو خوف کھاو نہ ہی اس سے پیارکرو، اگر تم اس سے خوف کھاو گے تو یہ تمہارا مالک بن جائے گا اور اگر تم اس سے محبت کرو گے تو یہ تمہیں شکار بنا کر نگل جائے گا۔
۶۷۔ سچ اس دنیا کو اپنی عین شکل میں نہیں دیا گیا مگر تماثیل اور تشبیہات میں ۔ کسی اور صورت میں سچائی دینا ممکن ہی نہیں تھا۔
چنانچہ وہاں (عالمِ بالا میں) پیدائش ہوتی ہے اور اس کا مثالی عکس (دنیا میں پیدا ہوتا ہے) کوئی بھی سچ کو شبیہ سے جانے گا ۔ یا بعثت( جی اٹھنا) حقیقت میں کیا ہے ؟ اسی طرز پر انسان صورت کے بعد صورت سے بڑھتا جاتا ہے ۔ حجرہ عروسی یعنی خدا کے گھر کا بھی ایسا ہی ماجرا ہے ، تصور کے بعد تصور سچ کی طرف بڑھتا ہے جو کہ وصل(جذب ، ادغام) ہے۔
یہ میں نے ان کے لیے کہا جو صرف "باپ ، بیٹے اور مقدس روح ” کے الفاظ میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ انہیں حقیقی ظہور پر پانا چاہتے ہیں ۔ اور وہ جو انہیں حاصل نہیں کر پاتے پھر ان سے یہ الفاظ بھی لے لیے جائیں گے ۔ بے شک، کوئی بھی انہیں خدا کے فضل سے صلیب کی قوت کی کاملیت کی معرفت میں پا سکتا ہے، جسے رسولوں نے دائیاں اور بائیاں کہا۔(استعارے سے بیان کیا)۔
اور جو کوئی بھی اسے جان جاتا ہے پھر وہ عیسائی نہیں بلکہ عیسیٰ ہو تا ہے۔
۶۹۔ آقا نے کہا میں اس لیے آیا ہوں کہ نچلے(ارذل و ادنی) کو اونچے(افضل و اعلیٰ) سے اور ظاہر کو باطن سے ملا دوں۔ اور اس مقام کی بات اس نے استعاروں اور امثال میں کی ۔
وہ جو کہتے ہیں خدا اوپر ہے غلط ہیں کیونکہ اس کے لیے جو ایسی جگہ پر ہے کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے کہ وہ نزول کرتا ہے (نیچے کی طرف بڑھتا ہے) اور خدا جس سے ہر وہ چیز بھی منسوب کی جاتی ہے جو اس دنیا سے پوشیدہ ہے لیکن وہ ان سب سے بالا بھی ہے، در اصل یہ تو صرف باتیں ہیں ظاہر اور باطن، ظاہر سے باطن ..
آقا نے یہ بھی کہا میرا باپ جو کہ باطن میں ہے ! اور یہ بھی کہ اپنے حجرے میں جاؤ، دروازہ بند کرو اور اپنے باپ سے مخاطب ہو وہ جو کہ باطن میں ہے وہ جو اکیلا ہر شے کہ گہرے پسِ منظر میں ہے ۔
جبکہ وہ اکیلا جو ہر شے کے عمیق پسِ منظر میں ہے وہ شعورِ ابتدائی ہے ۔ جس کے بعد، کوئی بھی مزید عمق نہیں! آقا نے یہ بھی کہا کہ وہ جو ہر شے سے بالا ہے، خدا (باپ) جو شعورِ اولین ( اصل)ہے تمام عالم میں سراسر قائم ہے ۔ وہ اوپر بھی ہے نیچے بھی اور تمام اطراف میں بھی، اور مادی دنیا کے ہر وجود کے اندر بھی ، ہمارے جسموں میں بھی۔
وہ ہر شے کی گہرائی کے نیچے ہے، ہستی (اکوان) کی اساس میں ہے ۔
چنانچہ وہ جانا جا سکتا ہے لیکن اوپر نہیں، جس طرف عموماً لوگ اپنے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور آنکھیں، مگر ایک بالغ قلبِ سلیم(روحانی دل) سے جو کہ کائناتی وسعت پا چکا ہو۔
۷۱۔ جب حوّا(روح ، زندگی) آدم میں تھی تب کوئی موت نہیں تھی اور جب اسے اس سے علیحدہ کر دیا گیا موت ظاہر ہو گئی۔ اگر وہ دوبارہ اس میں داخل ہو جائے اور آدم اسے قبول کر لے دوبارہ کوئی موت نہیں ہو گی ۔
۷۳۔ حجرہ عروسی (یعنی خدا کا وصل ) جانوروں کے لیے نہیں ہے نہ ہی (خواہش کے )غلام مردوں اور نہ ہی ان عورتوں کے لیے ہے جو جذبات کے تحت ہوں۔ یہ تو پاک مردوں اور عورتوں کے لیے ہے جنہوں سے آزادی حاصل کر لی ہو۔
۷۴۔ روحِ مقدسہ کا احسان ہوا کہ ہم زمین پر پیدا کیے گئے، لیکن ہم دوبارہ زندہ ہوئے شکر ہو یسوع کا، ہم نے روح ِ مقدسہ میں طہارت پائی اور اس میں بقا پانے کے بعد ہم اس میں وصل پا گئے ۔
۷۷۔ بد کار روحیں انہیں نہ تو دیکھ سکتی ہیں نہ ہی ان پر قابو پا سکتیں ہیں جنہوں نے خود کو نورِ کامل کے لبادے میں چھپایا، ایسا لبادہ جو جذب کے اسرار سے جگمگاتا ہے۔
۸۳۔ آدم دو کنواریوں سے وجود میں آیا ، روح اور بے آباد زمین سے !
۸۴۔ بہشت کے وسط میں دو درخت ہیں، جن میں سے ایک سے حیوان پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے سے انسان۔ آدم نے اس درخت سے کھایا جو جانور پیدا کرتا ہے۔ تو وہ جانور بن گیا اور جانور وں کو پیدا کرتا رہا۔ اسی لیے آج جانور نما آدم محترم رکھے جاتے ہیں(اشراف سمجھتے جاتے ہیں) کیونکہ جس درخت کا آدم نے پھل کھایا وہ درخت جانوروں کے لیے تھا اسی وجہ سے آدم کے بچے بھی بہت بڑھ گئے اور ان سب نے بھی شجرِ حیوان کے پھل کھائے۔ جس کے نتیجے میں شجرِ حیوان کے پھلوں نے بے شمار انسانور(انسان+جانور) پیدا کیے جو اب صرف اپنے جیسے انسانی جانور کی ہی تعظیم کرتے ہیں۔
لیکن خدا انسان پیدا کرتا ہے جبکہ انسان خدا پیدا کرتے ہیں۔
۸۵۔ دَنی الطبع لوگ بھی خدا بناتے ہیں اور اپنی بنائی اس مخلوق کی پوجا کرتے ہیں تو ان لوگوں کو، ان خداوں کی پوجا کرنے دو ان کے لیے یہی درست ہوگا۔
۸۷۔ اس دنیا میں غلام آزاد کے خادم ہیں لیکن دوسری دنیا میں آزاد غلام کی خدمت کریں گے ۔ تاہم حجرہ عروسی کے ( مقدس روح اور انسان کے ملاپ سے ہونے والے) بچے زمینی شادیوں والے بچوں کی خدمت کریں گے ۔
حجرہ عروسی سے پیدا ہونے والے بچے ایک اور ایک جیسا نام رکھتے ہیں سکوت (اطمینان) ان کی دائمی حالت ہے اور انہیں کسی شئے کی ضرورت نہیں ہوتی (بے چاہت ہوتے ہیں)۔
۹۰۔ وہ جو کہتے ہیں کہ وہ پہلے مریں گے اور پھر اٹھائے جائیں گے غلطی پر ہیں، اگر انہوں نے اپنی تجسیم( اس زندگی) کے دوران بعثت(زندگی ) حاصل نہ کی ، تو وہ اپنے جسموں کو چھوڑنے کے بعد کچھ نہیں پائیں گے ۔
۹۱۔ یہ میں پیغمبر فالیب کہہ رہا ہوں ، بڑھئی یوسف نے باغ لگایا کیونکہ اسے اپنی کارگری کے لیے لکڑی کی ضرورت تھی۔ یہ وہی تھا جس نے اُن درختوں سے صلیب بنائی جو اس نے خود لگائے تھے۔ اور اس کے نطفے (سے پیدا ہونے والا) بچہ اس پر لٹکایا گیا، جو (درخت) اس نے لگایا تھا۔
۹۳۔ یہ دنیا مردار خور ہے اور وہ سب بھی جو(انسانوں نے ) کھایا (یا چاہا)جاتا ہے ، حقیر ہے۔ جبکہ سچ ، زندگی خور ہے پس جو سچ پر پلا کبھی نہ مرے گا ۔ عیسی ٰ وہاں سے آیا اور وہاں کی خوراک لایا اور وہ جنہوں نے چاہا انہیں اس نے (ابدی) زندگی دی اور وہ کبھی نہ مرے ۔
۹۴۔ جنت وہ جگہ ہے ، جہاں مجھے بتایا جائے گا کہ یہ کھاؤ یا یہ نہ کھاؤ ، جیسے تمہاری مرضی! یہ وہ جگہ ہے جہاں میں کچھ بھی کھا سکتا ہوں کیونکہ یہاں شجرِ معرفت( علم و آگاہی کا درخت) بڑھتا ہے (لگا ہے)۔
قانون یہی درخت تھا، جو کہ یہ بیان تو کر سکتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ لیکن یہ انسان کو غلط سے روکتا نہیں ہے اور نہ ہی درستی کی طرف مائل کرتا ہے ۔ اور اس نے ہلاکت کی ان کی جنہوں نے اس میں سے کھایا ۔ اور جب اس نے حکم دیا کہ یہ کھاؤ، یہ نہ کھاؤ یہاں سے ہلاکت شروع ہوئی۔
۹۶۔ باپ بیٹے میں تھا اور بیٹا باپ میں تھا ، ایسے ہی آسمانی سلطنت کے واقعات (امور ، معاملات)ہیں۔
۱۰۲۔ ایک گھوڑا، گھوڑا پیدا کرتا ہے، ایک انسان انسان پیدا کرتا ہے خدا، خدا پیدا کرتا ہے۔
۱۰۵۔ نہیں، وہ سب جو جسم رکھتے ہیں اس قابل ہوں کہ اپنی حقیقت کی پہچان کر سکیں ۔ اور وہ جو اپنی حقیقت کا عرفان نہیں کر سکیں گے وہ اُن امکانات کو استعمال نہیں کر سکیں گے جو ان کو لطف کے لیے بخشے گئے ہیں ۔ صرف وہی جو اپنی حقیقت کا عرفان پا گئے یقینی طور پر لطف اندوز ہونگے۔
۱۰۸۔ پاک آدمی مکمل طور پر طاہر ہوتا ہے جسم کے آخری حصے تک۔ اگر کوئی پاک آدمی کو روٹی دے، پاک آدمی اسے بھی مقدس بنا دیتا ہے اور پانی کو بھی اور کوئی بھی چیز جو اسے دی جائے یہ سب خالص اور پاک ہو جاتا ہے ۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ طاہر جسموں کو مطہر نہ کرے ؟
 (۲۹ نومبر ۲۰۱۲)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے