رات میں تو تھے ہی ، لیکن ہمیں دن میں بھی تارے ہی نظر آئے صاحب! تارے ہی تارے ، تاریں ہی تاریں ..
مرمت کے لیے دیے ہیں ، ہر تار ، تار تار تھی صاحب! تار ! واہ صاحب! تار ، کبھی آتا تھا تو بھیجا جاتا تھا! تار و پور سے کرتار پور تک تاریں ہی تاریں .. سرکٹ ہی سرکٹ! جی صاحب ، سارے سرکٹ شاٹ ہوئے ہوئے ہیں ! تاریں جلی ہوئی ہیں ! آپ کہے ہی تھے کہ سَرکٹ شارٹ ہیں م ہم نے اپنا سر سامنے کر دیا، کہ سر کٹے شارٹ نہ ہوں ، آپ کی بارگاہ میں سب سَرکٹے تھے یا دل جلے !
ہائے صاحب اتنے میں کہیں لَتا جؔی کی آواز کانوں پڑتی ہے؛
؎ کہیں دیپ جلے کہیں دل
ذرا دیکھ لے آ کر پروانے
تیری کونسی ہے منزل !
تو دوسری طرف آسٹرین بستہ کار شوبرٹؔ نے نہال کر رکھا ہے ! صرف اِس لیے کہ اب بون ؔ صرف بیت ہوفنؔ کا نہیں ہمارا بھی ہے! اور ہمیں اِس میں شوبرٹ ؔ سننے کی اور جینے کی اجازت ہے!
آپ پوچھے اجازت کہاں سے آئی تھی؟ کون دیتا ہے اجازت؟ کیوں مانگتے ہو اجازت!!
تو عرض ہے کہ اجسام کے مابین اُن کے ہونے کو دیکھتے ہوئے کچھ بھی کرنا ہو تو اجازت طلب کرنا ہی اخلاق کا تقاضا ہے ! آہ صاحب ! آپ کہے کہ تقاضا کرنا بھی بے ادبی ہے ! روایت ہے کہ فرمایا جنابِ عمر نے کہ مومن دنیا سے ایسے گزرتا ہے جیسے خار دار جھاڑیوں سے کوئی ململ پوش!
ہم گزرے ہی نہیں ، دیکھ ہی رہے ہیں ، ہر کوئی لہو لہان ہے، کوئی کیسے جا پاتا ندیا کے اُس پار! ہم تو اتنا کہے ہیں کہ پار کیجیے ! تھوڑا پیار دیجیے ! یہی کہنے کی اجازت طلب کی تھی ، مل گئی تھی! پوچھے ملی کیسے ؟ ہم کہے تار سے ہی ملی تھی! تاریں مل گئی تھیں ! رات کے تارے جب دن کے تاروں سے گڈمڈ ہو جائیں تو کوئی نجومی کیا دیکھے گا؟ کوئی ستارہ شناس کیا بتا سکے گاَ خلائے بسیط کے اُن دائروں کی بابت .. جو رات اور دن میں ایک سا چلتے ہیں ، ٹھہرے ہی نہیں ، رکتے ہی نہیں !
ایسے میں بنجارے نے گایا ، ہندی فلم سودیؔس 2004 کا گیت ؛
؎ یونہی چلا چل راہی یُونہی چلا چل راہی کتنی حسین ہے یہ دنیا