نشست دَر نشست تھی!
قیام و قعود میں تشہد بجا لانا، تمجید بجا لانا، اِسی انداز میں بیٹھے کو “نشستند” کہتے ہیں۔ مگر ہم نشست کے معاملہ میں معذور واقع ہوئے ہیں۔
کبھی کسی بھی کرسی پر بیٹھنا نہ آیا صاحب! نشست تو ہے لیکن بیٹھنے والا بیٹھا ہی نہیں ، کھڑا یہاں وہاں دیکھ رہا ہے ، گھور رہا ہے اور بغور جائزہ تو لے رہا ہے ، مگر کیا ہے کہ بیٹھتا نہیں ہے .. آپ نے جدول تھاما اور “ب” سے پورا بیٹھنا دیکھنے لگے ! کہ اُصول و مبادی میں بھی “د” ب سے ہی تھی!
تہجی کا بیڑہ غرق ہے اور لہجوں میں گنجائش نہیں ! کیوں نہیں تھی، گنجائش!!!
گنجائش نکالی جائے ! ہمیں بھی اپنی راہ لینے کی اپنا آسرا کرنے کی کوشش کرنی ہے صاحب!
بھیڑ بھاڑ ہے تو کہیں دھوم دھام!
ایسے میں کوئی بنجارہ ، ڈفلی بجائے یا ڈھولکی
راستہ لیتا ہے !
فرمایا، نوٹ: راستہ لینے والا ہی راستہ دے سکتا ہے !
مختلف ناموں ، اعنوانات اور خطابات کے ساتھ یاد کیے جانے والے راقم کا دفتری نام عبدالباسط ظفر ہے۔ ہر ملک اور زبان میں پہلے تو نام کے تلفظ اور ہجوں کے فرق سے مختلف نام بننے لگے اور اُنہی بنتے بگڑتے ناموں کے دوران ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہمارا کوئی “نام” نہیں ہے، یہاں تک رُکے تو ایک عزیز ترنت بولے کہے آپ کا تو نام نہیں ہے ، ہمارا تو کام بھی کوئی نہیں ہے ! موقع کو غنیمت جان کر پوچھے، شاہ صاحب، تو ہمارا کیا “کام” ہے؟ فرمایا آپ علم والے ہیں ، لکھیں، جی لام سے لکھیں !
رشتے ہی رشتے اور رستے ہی رستے، خیر! رشتوں کی ٹیڑ میڑ میں ایک تعلق کی سیدھ نصیب ہو جائے تو کیا خوب ہو ! ہر رستے پر رشتے کا اشتہار ہی نظر آیا! آپ نے شرارت کی ، پوچھا، اشتہار بھی لام کے تھے؟ ہم شرمائے کہا، “گندی باتیں نہ کریں”.. سامنے لکھا تھا اشتہار لگانا منع ہے! کتے کا بچہ پیشاب کر رہا ہے .. وغیرہ وغیرہ !
جی صاحب! ایسے ادھورے جملوں سے علم کا پیاسا کہاں سیرابی پاتا .. پڑھتا گیا ، اُن عبارتوں کو ، عمارتوں کو، اور لفظوں کے کباڑ خانوں میں پڑے نئے پرانے حروف کو .. فرمایا ، آدمی جب کباڑ اکٹھا کر لے تو آپ کباڑیہ بن جائے ! لفظوں کا کباڑ بیچتے ہیں! کوئی اخبار سمجھ بیٹھا .. بار بار کہے تھے کہ اخبار نہیں ہے ، کباڑ ہے ! بے کار ہے !
راستے کی راستی ہم نہ جانیں صاحب!
راستہ مانگتے ہیں ، راست مانگتے ہیں ، راہِ راست مانگتے ہیں
ایک ہی کافی ہے
ایک ہی دے دیجیے !
کیا دیکھتے ہیں کہ ہر راستہ، سین کی سیدھ سے تھا! یعنی ہر راستہ ، ستّ کا راستہ تھا! آپ سمجھ گئے کہ راہ ، ست کی راہ تو ہے ، لیکن اُس میں ایک “آہ” بھی تو ہے ! سیدھے راستے کی آہ بھی سیدھی تھی صاحب ! اور لطف اِس بات کا تھا کہ سین کا سیدھ ، باسط کے سین سے جا ملا تھا! لفظوں کی کاٹا پیٹی تھی ! ہو رہی تھی! تو ایسے میں ہم دو حرف مانگتے ہیں ، راستہ مانگتے ہیں خدا مانگتے ہیں !
جی کوئی اسِم خداوندی دے دیجیے !
مانگے تھے صاحب سب نام آپ کا، ہم جانتے تھے کہ آپ کا کوئی نام نہیں ہے .. کوئی نام ہے ہی نہیں !
واضع رہے کہ ابراہیمی ادیان کے ساتھ ساتھ کلچرل طور پر بھی جانے جانے والے ناموں میں محدود ناموں کی اجارہ داری ہے ، اُس میں بھی تلفظ اور لہجوں کا فرق ہے ، جیسا کہ اہلِ فارس “خدا” کہتے ہیں ، “خدایا” بھی کہا جاتا ہے ، وسطی ایشیا کے ممالک میں بھی اِسی کے تلفظ ہیں ، جیسا کہ “قُدایا” ، “کُدایا” اور “گُدایا” کے حلقومی فرق سے پیدا ہونے والے لہجے ، پھر “تانرا، Tanrı” بھی کہا جاتا ہے ، نامِ خدا، تصورِ خدا کی بھی عکاسی کرتا ہے ! اِس ضمن میں یہود کے یہاں “ہاشم، ایلوھیم” تو کہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ خداوند کا ایک نام ایسا ہے جو ہمیں لینے سے ممانعت ہے ، اور اُس نام کو لیا ہی نہیں جاتا ، کہ وہ کِسی کو معلوم ہی نہیں .. کہ اُس کو جاننے والا خدا کو باقائدہ System میں enter کر سکتا ہے ۔ شاید وہ تھیوری آف ایوری تھنگTheory of Everything ہے ! جس سے realities کے interfaces change ہو سکتے ہیں ؟ یہ تو حالات ہیں !
(بون کا بنجارہ )