
شام ہوئی تو کیا کرو گے؟ آپ پوچھا کیے !
غروبِ آفتاب سے مطلعِ فجر تک ، جو کوئی جاتا تو کیا دیکھتا ہے ؟
دیکھتا ہے کہ ہم جو لوٹے تو آپ کی بانہوں میں ، لُٹے تو آپ کی بانہوں میں ! مشرق و مغرب سی دو بانہیں ..
ایسی کشادگی کہ روح سمٹ نہ سکے گی! اُسی کشادگی میں سمٹ نہ سکنے والی شام!
؎ آ کہ تیری بانہوں میں ہر شام لگے سِندھوری
آہ صاحب! آج پھر کبیر داؔس بہت یاد آئے ۔ ہم اُداس ہوئے ، آپ سمجھے داس ہوئے ہیں!
ہر داس ، اُداس ہی تھا صاحب! کہ جن و بشر کو شمس و قمر کے ساتھ دیکھتا ہے اور محض دیکھتا ہے! فرمائے؛
دنیا بڑی بانوری پتھر پوجن جائے
گھر کی چاکی کوئی نہ پُوجے جس کا پِسا کھائے
ندی کنارے دھواں اٹھے میں جانوں کچھ ہوئے
جس کارن میں جوگن بنی کہیں وہ ہی نہ جلتا ہوئے
بانوری دنیا! میں سِندھوری شامیں ، ایک تواتر سے قائم ہیں اور سین صراط کی سیدھ مستقیم ہے ۔ ہما دم منزل کی اَور بڑھتا راہی، جو بڑھا تو ..
ب سے ہی بڑھا تھا صاحب! بانوری کہے تو کرشن بہاؔری یاد آ گئے ، فرمائے ؛
؎ زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں!!!
یہی تو ہم کہے تھے کہ راستہ صرف ایک ہی ہے ، صراط کا راستہ! اِسی راستے کی سیدھ میں چار قدم چلنے کا حوصلہ آپ سے ہی ملا تھا!
فرمائے ملاقات اور اوقات کی بھی جوڑیاں ہیں !
” جوڑیاں” کو کوئی” چوڑیاں” لکھ رہا ہے تو کوئی” کلائیاں” سمجھ بیٹھا تھا! ہم سمجھ گئے کہ کاف کلائیاں ہیں تو اُن میں چوڑیوں کی دو جوڑیاں بھی ہوں گی! تھیں ناں صاحب! ایک میں سورج اور دوسرے میں چاند جڑا تھا! جیسے کوئی سامنے کھڑا تھا!
فرمایا سفرِ صراط میں کسی کو سامنے کھڑا پاو تو سہارا دینا!
کسی چلتے ہوئے کو راستہ دینا!
کسی بیٹھے ہوئے کو آسرا!
آپ پوچھے اور جو صراط پر لیٹا وہ؟
وہ آپ کی بانہوں سے لپٹا ہوا تھا صاحب!
بہاؔری پوچھے ؛
؎ یہ چاند تارے زمیں اور آفتاب تمام
طواف کرتے ہیں کس کا طواف کرتے ہیں؟
ہم کہے آپ سے۔ اور آپ نے بانہیں اور پھیلا دیں!
ہم اور نہیں سِمٹے ! ایسے میں بانوری بانہوں کی سندھوری شام ہے! کہ” بانوری” کو “بہاری” لکھا تو کوئی” باقری” کہہ بیٹھا؛
؎ بکھر چکا ہوں غم زندگی کے شانوں پر
اب اپنی زلف کی صورت سنوار دے مجھ کو
آپ ب کو سنوارنے لگے! بہاری کو بانوری کو!
سندھوری شام بانہوں کے نام!