
فرمائے نیاز احمد بریلویؔ سے نیاز خیالؔوی تک ، فرمائے ، ہو، ہی ، ہوا ہے ۔ ہو کر ہی رہا ہے !
مثلاً؛
؎ ہجر کی جو مصیتیں عرض کی اُس کے رُوبرو
ناز و ادا سے مسکرا، کہنے لگا “جو ہو، سو ہو”
آپ سمجھ گئے کہ “ جو ہو سو ہو”، کے معانی کتنے وسیع ہیں! جو ہو سو ہو!
ایسے میں بابا فضل شاہ ؔ کلیامی کے حجرہ شریف میں حالتِ بیداری ہے، نیازؔ خیالوی فرمائے ؛
؎ تم بہت دلرُبا ، تم بہت خوبرو
اللہ ھوُ، اللہ ھوُ اللہ ھُو
کیا اُس مَرمَریں دہلیز سے ہم خود کو ٹیکے نہ تھے؟ کیا بسترِ مرگ سے چمٹے ہر وجود کو ہم چھُوئے نہ تھے؟
چھُوئے تھے صاحب! مگر چپکے سے !
ہر وجودِ مبارک کی برکت کا لمس ہمیں حاصل نہ ہوا تھا؟ اور کیوں نہ حاصل ہوتا، کہ سامنا ہو چکا تھا ۔
آہ! صاحب، خوبرو، روبرو ہو گیا! سامنا ہوتا تو بات اور تھی یہاں تو آمنا سامنا ہو گیا تھا!
یعنی آؔمنہ کا سامنا ہو گیا تھا! کہنے لگی کیا چاہتے ہیں؟ ہم کیا کہتے، سمجھ گئے کہ جو ہوا تھا، سو ہوتا رہے گا۔
فرمائے ؛
؎ فقر کی جو مصیبتیں عرض کی اُن کے روبرو
ناز و ادا سے مسکرا، کہنے لگا جو ہو سو ہو
وہ ناز و ادا، کہیں جرمِ جفا ہے تو کہیں قید و قضا! منہاج الؔقرآن اسکول ہے اور پرنسپل محمد رفیع رضاؔ صاحب سب بچوں کو ایک نماز کا کتابچہ تھما دیا ہے کہ اِسے پُر کر کے لانا ہے.. فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا ! قضا ہی قضا!
پوچھے ماجرا کیا ہے؟ ہم اسیرانِ دہر کو لاحق مصیبتیں عرض کیے تو ناز و ادا سے فرمائے ، جو ہو سو ہو!
جواباً ہم فیض کا شعر کہے ؛
؎ ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
ابا میاںؔ بھی نماز تاکید فرماتے ، ایک دن بروز جمعہ ہمارا “سامنا” ہو گیا، مسجد شیرِ ربانؔی سے خطبہ کی آواز برابر آ رہی ہے، ابامیاں کہے، عباس پُتر،
؎ آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ہم خامشی سے اُن کے ساتھ مسجد چل دیے..اور اُسی عالمِ مدہوشی میں مسجد کے ایک ستون سے خود کو سہارا دیے، آپ سے سرگوشی کی؛
؎ جب دور تک نہ کوئی فقیر آشنا ملا
تیرا نیاز مند ترے در سے جا ملا
اب کے داتا حضورؔ موجود ہوں کہ علؔامہ کا یہ شعر نظر آیا؛
؎ کبھی اَے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
آپ سمجھ گئے کہ نفسِ عتیق ہو تو جبینِ شوق ہی جبینِ نیاز ہو گی۔
شوق کی نیاز، شوق کی نماز! تایا جیؔ نے اُنہی ایام میں علاؔمہ کے اِس شعر کا وظیفہ کروایا،
؎ جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
بس تو صاحب، تب سے جونہی حالتِ سجدہ میں جھکتے ، زمین و آسمان سے یہی آواز آتی!
ہم سمجھ گئے کہ صنم کی آشنائی کے بعد نماز نیاز بن جاتی ہے ۔
آج ہم ابا میاؔں سے کشور کماؔر کی آواز میں کہنا چاہتے ہیں ؛
؎ کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا
چهوڑیے، بیکار کی نمازوں میں کہیں بیت نہ جائے رَینا
۔ ۔ ۔ ۔ رینا کے راز و نیاز۔ ۔۔