Skip to content

97: بانہوں کا بہل!

Bed Godesberg, Germany, 2022

آپ کی بانہوں میں کیا آئے،
جیا دھڑک دھڑک جائے . . . آپ کی بانہیں !
ایسے میں سید جون ایلیاؔ فرمائے جانی؛
؎ تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں!!!

پھر جرّعہ بھرا اور کہے ؛
؎ میں تمہارے ہی “دَم “ سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو!

“فرصت” نہیں تھی صاحب! فرقت ہی فرقت تھی! آہ! کی آواز آئی ، لالہ جی سرکارؔ فرمائے ؛
غم فرقت میں مر جانا نہ کچھ کہنا نہ کچھ سننا
مزہ الفت میں یوں پانا نہ کچھ کہنا نہ کچھ سننا

ایسے میں جوؔن پھر سے دخل دیے؛
؎ یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے!

آپ فرمائے کہ بانہوں میں سمٹو مت، بانہوں میں بہلو! بہل بہل کر ٹہلو!
ب کی بانہیں ہیں خندہ و کشادہ ! ہم سمجھ گئے کہ بانہوں سے فرصت کا انجام موت ہے ! مگر ب سے کون گبھراتا ہے ؟
آ پ ، ب سے گبھرارہے تھے صاحب! اور پناہ ملی بھی تو آپ کی ب بانہوں میں . . . مانک پوریؔ بولے ؛
؎ مٹ گئے شکوے جب اُس نے اَے جلیلؔ
ڈال دیں بانہیں گلے میں ناز سے

.. ناز کی بانہیں ، راز و نیاز کی بانہیں تھیں صاحب! ایک بازو راز کا ، تو دوسرا فقیروں کو ملتی نیاز کا تھا! فرمایا سلسلہِ مولویہ ؔ میں رقصِ درویشی کا یہ اُصول ہے کہ باہناں ہاتھ آسمان سے راز میں محوّہے اور داہنے سے خلق کو نیاز ملتی ہے .. ، جس کے گلے میں راز و نیاز پڑ جائیں، وہ پگلا کیا کرے؟ ہم پوچھے ہی تھے کہ جونؔ پھر سے کہے ؛
؎ کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق
تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں!!
فرمایا ہو سکتا ہے کہ موت کی پہلی گھڑی یونہی وارد ہو کہ گلے میں راز و نیاز کی بانہیں ڈال دی جائیں !
آپ نے ڈال دی تھیں بانہیں .. ہم چلتے چلے کہ قتیل شفاؔئی سے جا ٹکرائے ،
؎ الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کے بانہوں میں
ایسے میں فیض گھرؔ میں ڈاکٹر عارؔفہ ،کلامِ غالبؔ پڑھا رہی ہیں اور غاؔلب کا یہ شعر دُہرانے لگیں؛
؎ نیند اُس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

وہ راتوں کے بازوں ، وہ نیند کی قیامت بانہیں.. “وہ بانہیں گلے میں ڈالنا یاد ہے”، آہ! اب کہ ماسٹر اؔنور قمر صاحب کے مکان پر ہیں یعنی مِس نگؔینہ کے گھر ٹویشن جاری ہے، صاحب سفید کُرتا زیبِ تن کیے ہیں اور سمیرا مشتاق نے بانہیں گلے میں ڈال دیں !
ہم پھوٹ پھوٹ روئے ! جس کسی نے ہمارے گلے میں بانہیں ڈالیں، ہم رونے لگے صاحب! کیوں کہ جانتے تھے کہ
؎ میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو !

بہکنے کی بجائے فرمایا بہلو! ہم بہکے نہیں بہلے تھے صاحب!
ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ایلیاؔ نہیں خدا کہہ رہا ہے! اب آزادی کہاں ہوگی!
اب بانہوں میں بھینچا جائے گا!
۔۔۔ بہل کا بھینچا ۔۔ ۔
۔۔ ۔ بہک کا کھینچا ۔۔ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے