
فرمائے ایک عشائیے میں بونؔ میں ایک برہمن زادی سے سامنا ہوا، کہنے لگی میں مذہبی نہیں ہوں لیکن آپ کا “ہندواِزم” کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم کہے “ہندواِزم” کہنے والے کو سناتن دھرم کی کچھ خبر نہیں ہے دیوی جی! آپ کبیر داس کو جانتی ہیں؟ نہیں لیکن اُن کے کچھ دوہے سُن رکھے ہیں! ہم نے دیوی جی کی خدمت میں کبیر داؔس پڑھنا شروع کیا؛
؎ مالا جپوں تو کیوں کر جپوں، مکھ سے جپوں نہ رام
رام ہمارا ہمیں جپے رے ہم پایو بِسرام
. . .
رام میں بسرام پانے والے کو کیا رحمٰن کی رحمت کا دامن تنگ پڑے گا؟ یہ سوال پوچھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایک بھی ایسا صاحبِ ایمان نہیں جو کسی کی یا اپنی بخشش کی ضمانت دے سکے! آپ صاحب، جن کے نام سے نوالے کھاتے رہے، جس کے الفاظ کے تصدق میں زندگی گزارنے والے مشرک بھی سرخرو ہوئے ! تو کیا ہم نہ ہوں گے؟ گِرہ لگائے؛
؎ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
ہم ہوں نہ ہوں اِس میں کیا ہے ، یہی سوچ رہے ہیں کہ ابا میاںؔ کی صورت سامنے آ گئے، ایک روز ہمیں فرمائے؛ شہزاد پتر!
؎ بھیڑ میں گم ہو جانے سے مر جانا بہتر ہے
میں کیوں نام لکھواؤں تیرے چاہنے والوں میں
اُس دن سے ہر مفرس و فہرست سے اپنا نام کاٹا کیے ! نام ہی کاٹا کیے ! نام تو صرف رام کا ہے ! اور جس کا نام رام جپے اُسے کاہے کی چنتا؟
؎ چاہ گئی چنتا مٹی منوا بے پروا
جس کو کچھو نہ چاہیے وہ ہی شہنشاہ
اب کہ نوعمری ہے، بابا جی اسرارالحق شاہ صاحب کے آستانے پر ہوں۔ آپ فرمائے علاؔمہ کی شاعری قرآنی آیات کا منظوم ترجمہ ہے ۔ اتنے میں ایک خادم آگے بڑھا اور پوسٹر دِکھانے لگا؛ علاؔمہ کا شعر لکھا تھا
؎ ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ہم سے کہے، کہ یہ قرآنِ کریم کی کونسی آیت ہو سکتی ہے؟ آہ صاحب، ہم ڈی پی ایس اسکول کی اُس مسجد میں پہنچ گئے ، جہاں روشن کندہ کاری سے لکھا تھا، ہم پڑھنے لگے”. . .وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا. . . (۴۸:۲۹) آپ بہت شاد ہوئے اور ہمیں ایک خلعت عطا فرمائی۔ وہی خرقہِ فقیرانہ پہنے ہیں اور وہیں بیٹھے ہیں۔