
وہ الف لیلوی کہانیاں کیا بے معنی تھیں؟ جو نانی اماں کی گود میں سر رکھے پہروں سُنی تھیں؟ آپ پوچھا کیے۔
اُن کا پہروں سننا ہی معنیٰ پرور تھا! کہ پہر کو پہر سے کاٹتا ، کوئی بہر کو بہر سے، اور جو ملاح ہے، صاحب، وہ لہر کو لہر سے کاٹتا ہے!
؎ اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں میں
میری ہر سانس ترے نام لکھی ہو جیسے
جیسے نہیں تھی، ایسے ہی تھی اور جیسے تھی ویسے ہی رہے گی۔ آنے جانے والی ہر سانس ایک ایک پہر تھی، آپ سمجھ گئے کہ پہر ہے تو ہر پہر کا قہر بھی ہو گا! تھا صاحب، جھیلتے رہے ، کہ عتاب ہو یا ثواب ہو .. آپ فرمائے ، “جو بھی ہو ب سے ہی ہو”!
وہ کہانیاں الف ب کی کہانیاں تھیں! جنہیں لکھنے پڑھنے سے پہلے سنانے سُننے کا شوق پڑ گیا۔ فرمایا خدا شوق کی منزلیں آسان فرما دے۔ ایسے میں ہم لپکے اور عرض کیا؛
؎ نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تُو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
پاسِ ادب سے کہے، “؎ وہ بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں”۔ اتر ہی گیا اترنے والا! کہانیوں کے طویل بابوں میں ، باب ہی باب! دروازے ہی دروازے.. بابے ہی بابے! ڈھوک سیداںؔ میں بابا جی کے پاس بیٹھا ہوں فرمائے پنڈی کے یہ حالات ہیں کہ کوئی اینٹ اکھاڑو تو نیچے سے پانچ دس غوث قطب اور قلندر نکل آتے ہیں .. ریحان شاہ جی ساتھ بیٹھے تھے خوب محظوظ ہوئے ! اُس دن سے ہم نے حشرات کو بھی قابلِ تعظیم سمجھا! اب کہ ریستوراں میں احباب کے ساتھ ہیں اور چودھری محسن بھنبھناتے مچھروں کو پیٹ رہا ہے.. آپ روکا کیے ، فرمائے رہنے دو کچھ نہیں ہوتا.. انہیں مارو مت! اِن کے بھی اپنے سِلسلے ہیں! وہ سلسلے قسط وار تھے؟ سلسلے سلسلہ وار تھے صاحب! ہر روز نئی کہانی! علامہ فرمائے؛
؎ ہر لحظہ ہے مومِن کی نئی آن نئی شان
کلامِ باری میں فرمایا گیا، ”کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمٰن۔29)
یہ کہانیاں، یہ قلم کی روانیاں نہ ہوتیں تو پہر کیسے ٹلتے؟ ہم نے اِس ایک آیت پر اذہان ماوف ہوتے دیکھے ہیں۔ ایک آیت ایک سطر! آپ کہے سطر سے صراط پر روانی ملتی ہے ! نانی اماں کا سنانا معنی پرور ہے اور آپ کا پڑھنا ہماری پرورش کرتا رہے گا۔
ہمارے معنی آپ ہیں!