Skip to content

92: کیا، کہا!

Tallin, Estonia, 2018

فرمایا بزرگانِ خداوند کے “کیے” پر نہیں ، “کہے” پر عمل پیرا ہونا چاہیے!
ہم کہے کہ صاحب، اگر “کیا” ، روایت ہو جائے تب! کیا کہا جائے ؟ کیا کیا جائے؟
وہی کیا جا ئے، جو ہو رہا ہے اور جو ہورہا ہے، وہی ہے جو کروایا جا رہا ہے .. فرمایا الحلاجؔ نے کہ آدمی ایک واسطہِ محض ہے، تقدیرِ الٰہی کا! اُن کے جبر کو ہم وحدت الوجودی سمجھے، اور انہی کے لیے علی بن عثمانؔ ہجویری نے “حلولیہ” کی اصطلاح استعمال کی! مگر ہم عرض کیے کہ آپ بھی تو لکھا کیے، کہے کو لکھتے رہے ! کہے کو لکھ تو دیا لیکن “کہا” کا مرکز اور” کیا” کا مرکز ، کیا ایک ہی نہیں ہیں ؟
؎ کہا کہی جو میں کیا تم ہی تھے مجھ ماہی
؎ لکھا لکھی کی ہے نہیں دیکھا دیکھی بات
اِملا ہی چل رہی ہے .. اِملا کروانے والے کے پاس، الفاظ کہاں سے آتے تھے؟ سوال یہ تھا! غالبؔ فرمائے ،
؎ آتے ہیں غیب سے یہ "الفاظ "خیال میں
علامہؔ کہے ،
؎ مقام "لفظ” کا ہے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقام دل کہاں ہے!

ہم کہے کہ “کیے” پر نہ جائیں تو” تذکرہ غؔوثیہ” کا کیا کریں؟ گلُستان ، بَوستان کے ساتھ الف لؔیلہ اور رُعبایاتِ خیاؔم بھی جلا دیں؟ اے حمید ؔ اور ابنِ صفیؔ کا کیا کریں؟ کسی کے بھی کیے پر غور نہ کریں؟ کہے پر بھی؟ اور کہے میں جو کیے، یا کیے میں جو کہے، اُن کا کیا کروں؟
حفیظ ہوشیارپوریؔ بھی پوچھے؛
؎ دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظؔ
بات دل میں کہاں سے آتی ہے؟

۔۔۔ڈھونڈتے رہے ، تلاشتے رہے ..

اِسی کھوج میں ہیں اور بابائے جدید نفسیات استاد سگمنڈ فرائڈ کی رہائش گاہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ فرائڈ فرمائے کہ کوئی ایسا نفس کا گوشہ نہیں ہے جہاں شاعر نفسیات دان سے پہلے نہ پہنچا ہو! آہ، اب کہ نفسیات کے طالبِ علم ہیں اور یہی بحث اپنے استاد سے کر بیٹھے ہیں ، آہ صاحب ! اب کہ پنڈی ڈھوک سیداؔں میں خانوادہ چشت کے قطب اسرار الحقؔ شاہ صاحب کے یہاں ہوں ؛ فرمائے سیکس کو صرف دو شخصیات پر آشکار کیا گیا ہے ، ایک سگمنڈ فرائڈ دوسرا اوشوؔ !
یہ لفظوں کا تار میل، یہ قال و قیل، ہم کہتے ہیں کہ یہ بھی دیگر حرکات و سکنات کی ہی طرح ہیں !
کہ ایک ایک جواب کے لیے جو برسوں لفظوں پر چلا تھا،
وہ خاموش بدن کِس کا تھا؟
کسی ب کا تھا!
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے