
فرمایا تن کی تنہائی کو وجود کی خلوت سمجھو! تنہائیِ ذات میں وحدت کو جان لو! یہ نعمتِ حیات جس دیوانے کو مل جائے وہ متعجب نگاہوں سے افلاک کیوں نہ دیکھتا! وہ ناظر نظر اور منظر ، تینوں کو یکتا دیکھتا ہے۔ فرمائے کہ آج صبح سے میڈم نور جہاں ؔ یاد آ رہی ہیں .. آرتھوڈاکس کلؔیسا میں سے سنیچر کے روز اُلوہی گیتوں کی آواز آئی تو ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ملکہ ترنمؔ گا رہی ہوں؛
؎ تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
…
بہاروں کو ثبات دینے والے نے ہی خزاؤں کو تغیر دیا تھا! جِسے بچپن میں تیرا غم مل گیا اُنہیں شباب میں غمِ دہر نہ ہوگا، اور لازم ہے اُنہیں بڑھاپے میں یقیناً تُو مل جائے گا! واہ صاحب! آپ دیکھنے لگے کہ یہ آپ سے” تُو” تک کی دیدہ دلیری ہم میں کہاں سے کُوند پڑی! ہم شرمائے ، ب سے ہی شرمائے کہ بچپن ، بڑھاپا ہو، یا پھر بہاروں کا ثبات ، جو بھی ہے، ب سے ہی ہے ! ایسے میں تسلیم فاضلیؔ نے ہماری وکالت کی اور کہے؛
؎ پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے
آپ سے پھر تم ہوئے پھر تُو کا عنواں ہو گئے
آپ صاحب، شاعروں نے ، فقیروں نے، رِندوں اور قلندروں نے آپ کے ہی نعرے بلند کیے تھے ۔ یہی سوچ رہے ہیں اور دعا مانگ رہے ہیں .. آہ صاحب ، ہم نے ہاتھ اُٹھائے، دامن بچھایا ، جو بَن پایا کیا.. کہ اکبر الہٰ آبادی ؔ فرمائے
سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دعا سے
اِک روز تمہیں مانگ کے دیکھیں گے خدا سے
اِک روز اُنہیں مانگ کے دیکھیں گے خدا سے
اِک روز ہمیں مانگ کے دیکھیں گے خدا سے
۔۔۔
یہی کوئی سِن پچانوّے ہوگا، ثمن آبادؔ لاہور میں ریاضت جاری تھی کہ چچا جانؔ زیارت کو آئے، ظہرانے کے بعد سامنے کرسی پر تشریف رکھے ہیں ، کہنے لگے ؛
؎ ہم دعا لکھتے رہے ، وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا
آہ صاحب ! ابا میاںؔ کے سامنے دہرانے کا حکم ملا تھا! آہ، ہم دہرا دیے صاحب! لوگ چکرا جاتے تھے ، ہم دہرا سے گئے ! آہ صاحب دوراہے سے بچتا تو چوراہے پہنچتا، آپ سمجھے کہ فرمائے ہیں دوارے سے اٹھتے تو چوبارے جا پاتے! صراط کے اطراف میں دو راہے، دوراہے بیسیوں تھے .. دوارہ ایک ہی تھا، آپ کا تھا۔
۔۔۔
نین دوارے تھے صاحب! ہارے تھے ، مگر کارے تھے صاحب! کام کر گئے ! جس نے دیکھا کہ فلک دیکھ رہا ہے ، اور دیکھتا ہے کہ دیکھ رہا ہے! وہ کسی قول و فعل کو اپنے سر کیسے لیتا؟ ابا میاںؔ ایک مدّت ہمیں دیکھتے اور پوچھتے رہے، “ایک نقطے نے؟” ایک نقطے نے مجرم کیسے بنا دیا؟
جی صاحب ایک ہی نقطہ تھا اور ایک ہی نطفہ تھا! جو یہاں سے وہاں ایک دہرائی میں جھوُم رہا ہے! ایسے میں اعتبار ساجدؔ نے لقمہ دیا؛
؎ایک ہم ہیں کہ غم دہر سے فرصت ہی نہیں
ایک وہ ہیں کہ غم ذات لیے پھرتے ہیں
ہم وہیں بولے کہ دیکھیے ایک اور ایک دو نہیں ، ایک ہی ہیں ! غم ِ دہر ہو یا غم ِ جاناں آنا جانا ، جانِ جاناں ایک ہی ہیں ! غالب ؔ کہے ، واقعی،
؎ نہ ہوتا گر جدا تن سے ، تو زانوں پر دھرا ہوتا!
سر ایک ہی تھا صاحب!
سر ایک ہی ہے!
غم ایک ہی ہے !