
فرمائے، موت کو ایسے یاد کرو ، جیسے وہ کوئی بچھڑی محبوبہ ہو!
آتی جاتی ہزاروں پہیلیوں سے الجھنے والا کوئی مشتاقِ زمن، اُس معمہ ازل کو کیوں کر جا پہنچتا؟ وہی معمہ ازل جس کا میم مراقبہ کرتا کوئی قلبِ سلیم ، سلیم تو تھا ہی حلیم بھی تھا۔
آپ پوچھے ، ؎ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
ہم کہے کہ غم سے پہلے آدمی موت سے نجات پائے کیوں؟ کہ جسے غمِ حسین نصیب ہو جائے وہ اپنی موت سے نجات کیوں نہ پائے ؟
پھر غالؔب فرمائے ؛
؎ موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جاری رکھا، فرمائے ؛
؎ تم نہ آؤ گے تو مرنے کی ہیں سو تدبیریں
موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بلا بھی نہ سکوں
واہ صاحب، وہ بُلا نہ سکنا ، بلائے نہ بننا، بِن آئے نہ رہنا ، یہ سب کیا تھا ؟ اِسی بیچار میں بنجار ہیں کہ مسجد شیرِ رباّنی کے لاوڈ اسپیکر سے ایک کلام بروز جمعہ پڑھا جا رہا ہے ،
دنیا کے اے مسافر !منزل تیری قبر ہے
طےکر رہا ہے جو تو ،دو دن کا یہ سفر ہے
جماعت پنجم کا وہ نو نہال اسکول کی طرف اٹھتے ہر قدم کو موت ہی سمجھا، پُھوپھی جان کا درس اُس کی معصوم زندگی کا متاعِ گراں بن چکا تھا۔فرمائے ہم نے موت کو ایسا یاد کیا کہ جیسے کوئی فریبی حسینہ ہو ! مہد سے لحد تک کی صراط سیدھی ہرگز نہیں تھی! یہ جان کر جس پہلو سے تھامے، جس دیوار سے لگے ، ہم نے کروٹ کروٹ اُسی لمحہ مبارک کا گھیان کیا، جس میں برکتیں ہی برکتیں ہیں .. ایسے میں جوشؔ نظر آئے ، فرمائے ؛
میری ہر سانس ہے اس بات کی شاہد اے موت
میں نے ہر لطف کے موقع پہ تجھے یاد کیا
۔۔ صاحب ہم کہتے ہیں کہ جوش کی زندگی میں دو چار مقاماتِ لطف ضرور ہوں گے، سانسوں کی شہادت موت کی منصفی میں بے سود ہے ، سانسوں کی شہادت زندگی پر گواہی دے سکتی ہے مگر موت پر ہر گز نہیں ! موت پر مکتی کا آسن باندھنے والا کوئی بِروا، بانکا بھی ہوا تو بنجارہ ہی ہوگا.. اور بن جارہے کی بے چارگی ایسے تھی کہ اُس نے ہر ہر ظلم و ستم میں بھی اپنی مات کو یاد کیا۔۔
موت، مات!
کہا کہی کی بات ہے!
اور جو دیکھا دیکھی کی بات ہے؟
وہاں نہ ہونے کی شہادت کافی ہے !