
فرمائے کہ ہر نفس کے لیے واجب ہے کہ اپنا مشاہدہ کرے، اپنے بننے اور بگڑنے کے عمل کو برابر دیکھے!
برابر دیکھنا کیا ہے، ہم نے پوچھا تو ارشاد فرمایا ، برابر دیکھنا ، حقیقت کی بربریت کو دیکھنا ہے، یہ دیکھنا کہ کیسے نطفے اور نقطے سے پھیلنے والا کوئی کردار ، کیسے کیفِ کردار تک پہنچے گا۔ اِسی کہانی کے تمام ہونے تک ، جو بھی کام بن پائے وہ ب سے ہی بن پائے ! ب سے بن پانے کی خبر کہاں رسید ہوگی؟ آپ نے استفسار کیا۔
ایسے میں سراج اورنگ آبادی ؔ بھی تشریف فرما تھے ، اُنہوں نے گِرہ لگائی؛
؎ خبر تحیرّ ِعشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا ، نہ تو مَیں رہا ، جو رہی سو بے خبری رہی
آپ سمجھ گئے کہ “خبر” تو ب کے نقطے کی ہے لیکن “بے خبری” بھی ب سے سِوا نہ تھی! ایسے میں خود کو شہرِ مولانا رُوم قونیہؔ میں پاتا ہوں۔ بابا جی کے ساتھ ہوٹل کی لابی میں بیٹھا ہوں ، پوچھتا ہوں کہ آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ؟ فرمائے جانِ جنوں اچھا ہوا ملنے آ گئے ، ناراض ہوں ناراش نہیں ، ورنہ ،
؎ نہ جنوں رہتا نہ پری رہتی!
پری تو نہیں تھی، جنوں تھا ، جنوں بھی پاکستانی پاپ بینڈ “جنون گروپ” کے زمانے سے ساتھ تھا، ایسے میں بینڈ کی آواز آئی ؛
؎ جنون سے اور عشق سے
ملتی ہے آزادی!
عشق و جنوں خمیر ِ آدمی میں نایاب تھے! تو آزادی کا دعوے دار کیوں ہوتا؟ کیوں چاہتا آزادی ، ہونے کی، ہمادم ہونے کی ، دمادم ہونے کی؟ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ سرکار وارث شاہؔ فرمائے؛
؎ وارث شاہ اینہاں عاشقاں نوں قید کون کرے، جنہاں رب بخشیاں آزادیاں نے
رب نے جنوں کی سرشاری دی تو آزادی کیوں نہ میسر ہوتی! ہم خبر کو بھی جبر ہی سمجھے ! شجر و حجر کو جو خبر ملی تھی وہ جبرِ یزداں کی ہی تھی۔ ہم سوچ رہے تھے کہ علامہؔ فرمائے ؛
پابندیِ تقدیر کہ پابندیِ احکام!
یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مردِ خرد مند
اک آن میں سَو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش، ابھی خُورسند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
۔۔۔
وہ احکامِ الہی، یا کامِ الہی نہیں تھے؟ یعنی کام جو بھی تھے وہ احکام ہی تھے، یہ اوامر و نہی، کیوں تھے کیا تھے؟ اِس سب سے آزادی کیا کسی جنوں کے مرہونِ منت تھے؟ یہی بوجھ رہے ہیں اور پروفیسر جہانگیر تمیمیؔ صاحب کے یہاں موجود ہوں ، آپ ہمیشہ علامہ کا یہ شعر دہراتے، فرماتے؛
؎کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہیں آفاق!
آپ صاحب ! کس میں کیا گم ہے، کیا کم ہے؟ ہم آج نہ جانتے تھے! ہم یہی کہتے ہیں کہ وہ نفسِ عتیق جو گھات میں ہے،صراط پر رات دیکھتا ہے .. وہ انفس و آفاق کے دونوں قدم چل چکا ہے .. وہ ہو لیا ہے !
غالب ؔ تو ایک قدم چلے تھے کہ خدا سے کہنے لگے ؛
؎ ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
۔۔۔
آہ صاحب ، اور ہم نے تو دو قدم بھر لیے تھے ! اور یہ دو قدم ادا جعفریؔ سے ہی تھے، فرمائیں؛
؎ یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
ہم صراط پر تیسرا قدم لے رہے ہیں ، ادا جعفری ؔ نے جس کو فخر سمجھا، کسی نے اُسے خبر اور ہم نے جبر سمجھ لیا!
۔۔۔ جبر کی خبر، فقر پر فخر۔۔۔