فرمایا کہ اولیا کہ کہے پر عمل پیرا رہو، کیے کے کھوج میں نہ چل نکلنا.. کیے کا کھوج، کون کرتا؟ کیے کا کھوج لگانے والے بیسیوں نقاد ہر چوراہے پر اوندھے منہ پڑے تھے ، مگر تھے۔ کیے کا کھوج کرنے والے کیا افعالِ بشر کو ناپ سکتے تھے؟ کیا بتا سکتے تھے کسی وجود کے ہر اُس عمل کو، جس سے ، بیسیوں چشمے پھوٹ رہے تھے .. ابھی ہم اتنا ہی کہے کہ جَون پھوٹ پھوٹ پڑے ، کہے جانی، یہ تو بتاو؛
کس کو فرصت ہے
مجھ سے بحث کرے ۔۔۔۔
اور ثابت کرے کہ میراوجود ۔۔۔۔۔
زندگی کے لیے
ضروری ہے ۔۔
ہم کہے کہ جن کو فرصت ہے وہ “کیے کا کھوج” لگا رہے ہیں ! کہ کوئی بندہ ِ خدا آخر ایسا کیا کرتا ہے جو اُس کے عمل کے دائرے بگڑتے نہیں ہیں .. ایسے میں میرؔ جی درستی فرمائے ؛
؎ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
کیے کا کھوج لگانے والے ذات کو فعل سے ، لفظ کو آواز سے جدا سمجھتے ہیں ! ہائے صاحب ، “جدا” کہنا تھا کہ میڈمؔ نور ِ جہاں ، احمد فرازؔ صاحب کی غزل گنگنانے لگئیں؛
؎ جدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں
فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے
آہ! صراط ! فرمایا پُر خطر گھاٹیوں سے یوں اترنا جیسے کبھی اترے ہی نہیں ! اور جو چار سُو بکھرے فریب ہیں وہ جدائیوں کے ہی ماخذ ہیں
اب کہ صدیوں کی تھکن سے چُور اپنے بسیرے پر لوٹا ہوں !
خواجہ بختیاؔر کے نان بائی نے پوچھا آپ کافی لیں گے؟
ہم کیا بتاتے ، کہے بس یہی “کافی” ہے! اور غور کرنے لگے؛
؎ لطف ِکلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
ہم سمجھ گئے کہ بسمل کی ہائے ھُو تو سنی جا سکتی ہے لیکن اُس کے تڑپنے کا کھوج مشکل ہے ! تڑپا کیے، ہوا کیے .. اور جو ہوا کیے اُس کا کھوج کیوں کر؟ ہوا کیے، جیا کیے !
۔۔ جتنا کہا، اُتنا کیا۔۔۔
کیے کا کھوج .. جان کا روگ
اب بھوگ!!!