اب کہ شہرِ بَون میں مسکن ہے! آہ صاحب ! مسکن سے یاد آیا، کہ ابا میاں ؔ کے ساتھ آبائی زمینوں پر کھڑا ہوں۔ عمر بمشکل چھے برس ہو گی، ابامیاںؔ نے ہمیں دیکھا اور کہا؛
؎ کیا تقدیر نے چُنوائے تھے اِس لیے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
ایسے استفہامیہ انداز سے شعر سنائے کہ محسوس ہوا جواب مانگتے ہیں۔ وہ طفلِ ناتواں خاموش ہی رہا، اور خاموشی سے ہر ہر پرندے کا گھونسلہ دیکھتا رہا، اور گھونسلےدیکھتے دیکھتے اب کہ اقبالؔ ٹاون لاہور ہے، کہیں کوٹھی بنی تھی تو دروازے کے ساتھ آشیانہِ خورشیدؔ لکھا ہے، کہیں قصر تو کوئی نشیمن لکھا بیٹھا ہے..
ایسے میں بیدمؔ وارثی فرمائے
؎ قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے
اب کہ شہرِ روؔم میں اوائل شباب آیا کیے ، تو کیا ہے کہ بیدم ؔ کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ، جو شبِ اوّل کا شباشب شباب کیا لبالب نہیں تھا؟ لبالب ہی تھا شباشب کا شباب .. آپ کہے کہ بیدمؔ کی ب سے ہی ہوگا؟ جی صاحب! بیدم وارثیؔ کی ب ہی تراب کی ب تھی، ہم چُومتے رہے ہر خس و خاشاک کو، جس کسی نے بتایا کہ “ب” سے ہی تھے .. شہرِ روماؔ کے کلیساوں کے گھڑیال بج رہے ہیں اور ہم دم لینے لگے کہ بیدمؔ فرمائے؛

؎ کیوں نہ ہوں کونین کی آزادیاں اس پر نثار
ہے دل بیدمؔ اسیر دام گیسوئے علی
آہ صاحب! ہم بھی یہی پوچھتے ہیں کہ کیوں نہ ہوں آزادیاں ہم پر نثار ؟
ابا میاںؔ کو کیسے بتاتے کہ آزادیاں نشیمن کے مٹ جانے سے ہی ملتی ہیں .. آپ فرمائے نہ رہے گا نشیمن نہ گریں گی بجلیاں ! آہ صاحب وہ بجلیاں بھی …
آپ کی آنکھیں بھر آئیں .. ہمیں ب سے دیکھا اور سرگوشی کیے ، “ب سے ہی تھیں”
سمجھنے والے نے دیکھ بھال کر ہی سمجھا تھا..
ب سے دیکھتے رہے .. ٹھہرے نہیں ، کہ فرمایا ٹھہر پر ہی قہر ہے .. جو صراط پر قدم رکھے تو ٹھہرنا نہیں، رُکنا نہیں .. اِسی چلتے چلنے میں، مجھے ماکسؔ نان بائی بھی نظر آیا.. آپ صاحب: اب صاحب، نیوؔکمپیس لاہور میں چچا جانؔ کے ساتھ بیٹھا ہوں فرمائے کہ امام المجاذیب شاہ شرف الؔدین نے کئی سال دریا میں اتر کر کثرت سے ریاضت فرمائی یہاں تک کہ خداوند نے پوچھا، مانگ جو مانگتا ہے۔ آپ نے فرمایا باری تعالیٰ مجھے بھی مولا علؑی بنا دے ۔ جواب آیا علؑی کے مقام تک پہنچنا مشکل ہے ہاں مگر بُو علی بن سکتے ہو اس وقت سے آپ بُو علؑی کہلائے! ہم نے جی میں کتنی ہی بار دعا کی تھی، ہم ب ہی بن جائیں تو کیا خوب ہو!
فرمائے بایزیدِ بسطام ہو، یا خواجہ باقی باللہ ؔ، بِشر الحافیؔ ہو یا خواجہ بختیار ؔکاکی، بُلھے شاہ ہوں یا بُو علی سب کی ب سے بندھن جوڑ لو! ایسے بندھو گے کہ ٹوٹنے نہ پاو گے .. مسکن، نشیمن نہیں .. بسیرا کرو!
علامہ نے تائید کی فرمایا؛
؎ نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلُطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
آہ صاحب! اباؔمیاں مرحوم علامہؔ کا یہ شعر یوں سناتے کہ گویا ،
“تُو “ شاہین ہے! شہزاد پتر، تُو بسیرا کر ، پہاڑوں کی چٹانوں پر! اباؔ میاں کو کیسے بتاتا کہ تنکوں سے بنے نشیمن پہ گرتی بجلیاں ، شاہین کے بسیرے کو بھی بھسم کر ڈالتی ہیں .. فرق صرف چناو کا ہے.. فرمائے کہ انجام میں آغاز کا ہی چہرہ نہاں ہے، جو اوّل ہے وہی آخر بھی ہے اور یہ نقطہ سمجھو کہ جو “حییّ” ہے وہی “قیوم” بھی ہے! کیا یہی کافی نہیں ہے؟
کافی ہے صاحب!
کافی تھا صاحب!
۔۔ ب کافی، ب شافی۔۔