واہ صاحب! فرمایا ہیر بھی فقیر ہی تھی، اور فقیر کی پوٹلی ہیروں سے لدی ہوتی ہے ، لیکن لاہور کے ایک ایسے صاحبِ حال کی معیت ملی جنہوں نے واصفؔ علی واصف سے ہمکنار کیا۔ واصف صاحبؔ فرمائے
؎ جا مَوجاں مار پیاریا، تیری گُدڑی آیا لعل
اُنہی موجوں میں ، جو وقت کے سیلِ رواں میں ابھرتی ڈوب جاتی تھیں، ہم بھی موج در موج بہتے گئے.. آپ نے نذاکت سے پوچھا، بہتے بھی ب سے ہی رہے ہوں گے! جی صاحب! ب کی برکتیں تھیں ، ب کی نعمتیں تھیں .. اُنہی نعمتوں کا حساب و شمار تو نہ کر سکے ، التبہ ہر ہر دوارے پر ماتھا ٹیکا کیے..
؎ جہاں دیکھا نقشِ پا تیرا
اِسی ماتھا ٹیکی کی روایت برقرار تھی اور ہم ملکہؔ ہنس میں وارث شاہ ؔ سرکار کے اُسی حجرہ میں موجود ہیں جہاں آپ نے ہیرؔ مکمل فرمائی تھی.. اُس حجرے کے درودیوار سے لپٹ کر کون رویا تھا؟ آپ پوچھے۔ ضرور کوئی بنجارہ ہو گا، جو وارفتگی میں پسیج کر رہ گیا ہوگا۔ اُسی حجرہ کی چوکھٹ سے لپٹا ہوا ہوں کہ جنڈیالہؔ شیر خان سے ایک گائیک ہؔیر پڑھتا ہے ؛
بجھی عشقَ دی اگّ نوں واؤ لگی، سمَاں آیا ہے شوق جگاونے دا
بالناتھ دے ٹلے دا راہ پھڑیا، متا جاگیا کنّ پڑاونے دا
پٹے پال ملائیاں نال رکھے، وقت آیا ہے رگڑ مناونے دا
جرم کرم تیاگ کے ٹھان بیٹھا، کِسے جوگی دے ہتھ وِکاونے دا
بُندے سونے دے لاہ کے چائ چڑھیا، کنّ پاڑ کے مُندراں پاونے دا
کسے ایسے گرو دی ٹہل کریئے، سحر دسّ دے رنّ کھسکاونے دا
وارث شاؔہ میاں ایہناں عاشقاں نوں، فکر ذرا نہ جند گواونے دا

صاحب، ایک ہے ہیؔر پڑھنا ، ایک ہے کسی پر ہؔیر پڑھنا! اتنا تو آپ سمجھ گئے مگر پھر فرمائے ، کہ کسی پر ہیر پڑھنے سے جو اثرات ہوتے ہیں وہ اور ہیں البتہ اگر کوئی کسی فقیر پر ہی ہیر پڑھ دے تو کیا ہوگا؟ آہ صاحب! جو ہونا تھا ہو چکا تھا.. ہیر ؔ کو پڑھنے والے کے سامنے ہم دوزانوں بیٹھے ہیں اور ہم پر ہیرؔ کا دم ہو چکا ہے.. وہ سونے کے بُندے، وہ بجھے ہوئے عشق کی آگ، وہ بالناتھ جوگی.. سبھی ب کی نسبتیں تھیں .. اُنہیں نعمتوں کو سمیٹ رہے ہیں اور اب کہ فقیرؔ بن چکے ہیں .. قصور کے نواحی گاوں میں ، “امن چَوپال” کے اجرا پر مدعو کیا گیا ہوں۔ محبت کرنے والوں نے ہمیں سینے سے لگایا اور آپ کی ہیرؔ تھما دی !
ہیر حافظ
فقیر حافظ
۔۔۔