Skip to content

84: آغوش میں ہوں

Miyan Mir 2009

اب کہ آپ کی آغوش میں ہوں اور خاموش ہوں! فرمائے کہ جو آغوش میں بھی خاموش ہو، تو وہ کون ہے؟ ہم کہے کہ ہم جنابِ ایوبؔ پر بیچار کرتے ہیں ، ہم ہر ہر پیغمبر سے پیار کرتے ہیں۔ فرمائے ایوبؔ کا صبر بھی ب سے ہی تھا۔ ہم کہے کہ ایوبؔ بھی تہجی کے ہر حرف میں بستا دیکھا جا سکتا ہے ، جنابِ ایوبؔ کی کروٹیں کیا اقوام کا حاصل نہ بنی تھیں؟ کیا ہر ہر شخص نے اُس تکلیف اور رنج کی آہٹیں اپنی چوکھٹ پر نہ سُنی تھیں؟ الف سے یا تک کے سارے ایؔوب دہر میں آزمائے گئے تھے صاحب۔ آپ سمجھ گئے کہ اگر بنجارہ آزمایا جا رہا ہے تو یقیناً ایوبؔ کی ب سے آزمایا جا رہا تھا۔ آزمایا گیا تھا صاحب !
ایسے میں عزیز میاں ؔ قوال ہارمونیم بجاتے ہیں اور سیف الدین سیفؔ کی غزل کا مصرع سناتے ہیں ؛
؎ مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
جی صاحب ، ہمیں آزمانے والا رویا ہی تھا، رونے کے علاوہ اور چارہ ہی کہاں تھا۔ کبیر داسؔ بھی تائید کیے ؛
کبیرؔا جب پیدا ہوئے جگ ہنسے ہم روئے
ایسی کرنی کر چلو، ہم ہنسیں جگ روئے

غالب نے بھی فوراً آنسو پونجھتے ہوئے کہا؛
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
کہ ہمارے آزمانے والے بھی ہزار بار روئے ہوں گے صاحب ! آپ سمجھ گئے کہ ہر رونا ایوب ؔ کا رونا ہی تھا۔ چنانچہ افسردہ سے ہو کر ہم یحییٰ خان صاحبؔ کے کاجل کوٹھے سے نکلتے ہیں اور جی میں ایک شعر دہراتے ہیں ؛
؎ رسوا کروں گا دشتِ جنوں کو گلی گلی
دَر دَر پھروں گا چاکِ گریباں لیے ہوئے

۔۔۔
ہم در در کی بجائے قدم قدم پر گریباں چاک کر لیے صاحب! چاک ہی چاک.. اتنے چاک.. واہ صاحب اب کہ محلہ احاؔطہ آبکاری میں دادا جی کے مکان پر ہوں ہم سے دو سال بڑی تایازاد کے پاس دو ڈبے ہیں ، ہم بھی دیکھنے لگے ! اُس نے کھولے تو چاک ہی چاک تھے صاحب! چاک بھی کھا لیتی تھی! خیر،آپ فرمائے کہ ایک فقیر کی آنکھ بشر کا حشر نشر تواتر سے دیکھتی ہے ۔ اور بشر کا حشر نشر دیکھنے والی آنکھ سے دیکھا تو کیا دیکھا؟ دیکھا کہ ہر بشر بھی ایوب ہی تھا! اپنے اپنے دائروں میں محصور بدن،عمر بھر کی تھکن سے چُور بدن.. جو نہ بھی ہوتے تو کیا تھا! فرمایا، ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزین کیا ہے! تو کیا دھرتی کی انواع و اقسام کی نباتات، جمادات اور حیوانات کیا یہ سب بھی فرش کی رونقیں نہیں؟ افلاک کے ستاروں کو جو دیکھا تو زمین پر بسنے والے چہرے ابھرنے لگے.. واہ صاحب! پنجاب کا وہ زمانہ جب گھر کے صحن میں زیرِ آسماں سوتے ، اور ابا میاں ، اماں ، بہن سب سوئے پڑے ہیں اور ہم ہیں کہ دیکھ رہے ہیں .. دیکھتے رہے ستاروں کو.. ستاروں کو دیکھتے دیکھتے پیارے پیاروں کو دیکھنے لگا۔ بابا جی کہے ، جانِ جنوں! آہ صاحب ؛
؎ رُسوا کروں گا جانِ جنوں کو گلی گلی
در در پھروں گا چاکِ گریباں کیے ہوئے

چاک تو تھے ہی چاک بھی تھے! اور بہت سے رنگوں میں تھے! چاک ہی چاک، چوک ہی چوک! چوراہے کو کچھ شہروں کے پنجابی لہجے میں “چونک” بھی سنا گیا ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ سنا تو چونک ہی گیا۔ کہ اگر کسی چونک پر کوئی چونک جائے تو وہ کتنی مرتبہ چونک سکتا ہے! توبہ ہے صاحب! چونکا ہے صاحب!
رکا نہیں ہے، ٹھہرا نہیں ہے!
چونک سلامت، ایوب باقی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے