Skip to content

83: سفرِ ِصراط !

Canakkale 2014, Turkey

ہم صراط کہے تو آپ سمجھ گئے کہ “صراط” میں کوئی رات کا “ سِرّ” ضرور ہوگا۔
تھا صاحب!
صراط کا سفر ! جس وجودِ ناتواں کو لاحق ہو جائے، وہ کیوں کر موجودات سے جی بہلائے؟ آپ نے پوچھا کیا۔ ہم ادب سے کہے کہ وجودِ ناتواں کو ، وجود پر بھروسہ نہیں تھا، موجود سے بہل نہ سکے گاکہ موجودگی میں وجود پانے والے ہر جسم کے لیے ، واجب ہے کہ چلتا چلے.. ایسا چلے کہ چلتے ہوئے ہر منظر کو، ب سے دیکھے! اور جس کسی نے ب سے دیکھا، وہ بہلا بھی، بہکا بھی ، مگر بھٹکا نہیں ہے!
اُس کے سر پر دھرا دودھ کا مٹکا اٹکا نہیں ہے! وہ چلتا ہے رُکتا نہیں ہے ..ایسے میں خواجہ غلاؔم فرید فرمائے ؛
؎ اٹھ فریدا سُتیا تو دنیا ویکھن جا
جے کوئی مل جائے بخشیا تو وی بخشیا جا
ٹُریا ٹُریا جا فریدا ٹُریا ٹُریا جا

جا ہی رہے ہیں ، آ ہی رہے ہیں .. صراط پر تیسرا قدم ہے اور ہر قدم فرمایا چالیس میل کا ہے، ہر چالیس ایک سنگِ میل دیکھا کیے ! مسافتوں کی پیمائش حروف سے کر سکنے والا کوئی طفل، سِن ۹۴ ہے اور منہاج الؔقرآن اسکول میں صبح اسمبلی میں کھڑا ہے، اپنی جماعت کی قطار میں کھڑا ہے ۔ مِس نگینہ نے عثمان ریاض ؔ کو نعت پڑھنے کی دعوت دی! وہ معصوم لحَن و سخن ہی سخن! پڑھنے لگا؛
؎ فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بے بس نہیں بے سہارہ نہیں

آہ صاحب ! اسمبلی میں کھڑے ہی کھڑے پیمائشِ ہجراں کرنے لگے ہم ، آج تک ناپ ہی رہے ہیں .. فاصلے! مسافتیں! ہجر و فراق! یہ سب کیا تھے؟ کہاں تھے؟ ہجر و وصال کی جوڑی تو ہر کسی کے پاس پڑی تھی، لیکن ہجر و فراق کو دفعتاً پا لینا مَحال تھا!
ہم اِسی کھوج میں رہے اور چچاجان ؔ کے یہاں موجود ہیں، فرمائے کہ علامہ اقبالؔ کو “سر” کا خطاب تین کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھنے سے ملا ہے ۔ہم مان گئے صاحب اور اُن تسبیحات سے لڑکپن ڈھل گیا۔ چچاجانؔ کی بتائی مناجات کو ہم دیوانوں کی طرح ازبر کیے اور سیالکوٹ کی اُن گلیوں میں اتر کر وظائف شروع کر دیے !
ایسے میں استاد نصرت فتح علیؔ خان صاحب نے تاکید کی ،
؎ لا کے ماحول میں ، کچھ نہیں اِلا ھُو
ماحول، لاحول، ماحول!
پروفیسر احمد رفیقؔ فرمانے لگے کہ ، انسان کے بس میں کچھ ہے ہی نہیں ! یعنی لا حولَ، و لا قوة! نہ طاقت ہے نہ قوت! آدمی مَقدور و مجبور ہے ! ہو گا ہمیں اِس سے کیا واسطہ ! ہم کرتے رہے تسبیحات! قصبہ و قریہ کی ہر گلی سے ہمیں اذکار کی سرگوشیاں سنائی دینے لگی ہیں ! ہم پکار رہے تھے آپ کو. . .
صراط پر سے ، رات بھر سے ،
کہ رات کا جو راز ہے ، دے دیجیے ،
ہونے کا جو جواز ہے ، بتا دیجیے !
۔۔۔۔۔رات کا سِرّ، صِراط!۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے