آپ کہے یہ ہائے ہائے یہ وائے وائے تو ہر کوئی کرتا پھرتا ہے ۔ کوئی نیا نغمہ گنگناو! تو کیا ہے کہ صاحب نیا پرانا کچھ نہیں ہے۔ نظرِ ثمین حادث کو قدیم سے سِوا نہ دیکھ پائی! ایسے میں مولانا ظفر علیؔ خان یاد آ گئے، فرمایا؛
؎ دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایت اُولٰی تمہی تو ہو
جی ، دل جس کے ذکر سے سوز پاتے ہیں وہ آسودگیِ شفتہ آپ کے خیال کی ہی تھی۔
وہ سربہ کف جو انجانے راستوں پر گامزن تھا، اُس کو سُرعت ملی یا صورت! آپ پوچھا کیے۔ ہم دو زانوں بیٹھے ہیں کہتے ہیں کہ صاحب، صورت بھی سُرعت کی آئنہ دار ہے، سُرعت سے پردہ شعور سے گزر جانے والے چہرے، وہ صورتیں کیا سُرعت میں نہیں تھیں! برق رفتاری سے شعلہ زبانی تک جو ایک ہنگامہ مچا تھا اُس سے بے بہرہ جو ہو رہا تھا، وہ صورت کو بھی سُرعت سے دیکھنے والا کوئی نفسِ عتیق تھا! آپ نے توقف کیا اور پھر گویا ہوئے،
آہ ، واہ میں کیوں نہ بدلتی، اور پھر “گویا ہوئے”، آہ، واہ! گویا ہو گئے تھے ، جانتا ہوں کہ آپ کو جوؔن کی کتاب “گویا” یاد آ گئی ہو گی مومن خان مومنؔ نے جیب سے پرچہ نکالا اور پڑھا؛
؎ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
واہ! صاحب ، اب کہ تایا جی ؔ کی قرابت نصیب ہے ۔ بچپن کے دن قریب ہیں،اور ہمیں کہتے ہیں ، جانتے ہو، غالبؔ نے اِس ایک شعر کے بدلے میں پورا دیوان لُٹا دینے کا قصد کیا تھا۔ اور اِس شعر کی سمجھ “گویا” کو سمجھنے سے ہی لگ سکتی ہے ! ایسے میں نویں جماعت کا طالبِ علم ہوں اور میز پر اوشوؔ کی انگریزی کتابیں سجی تھیں۔اوشوؔ فرمائے ؛ that this “as if”is the only reality.
تایا جان کمرے میں آئے تو یہ دو انگریزی کتابیں دیکھ کر چلے گئے .. ہم پیچھے سے ہو لیے تو کہے ، بیٹا !
ہم بتلائے کہ “بیبا” ہیں بی بے ہیں اور رہیں گے! آپ نے سِن پنتالیس کی اِس بات کو یاد رکھا اور آخری دم تک ہمیں “بی با بچہ” کہتے رہے ۔ ب سے بھلے لوگ تھے صاحب! آج اُنہی کو کہتے ہیں کہ وہ میرے پاس ہوتے ہیں “گویا”، جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا!
دوسرا تھا ہی نہیں ، تایا جیؔ ، سہارا تھا ہی نہیں ! آہ!
اب کہ ہم اُن کے یہاں قریہ میں ہیں کہ ہمیں دیکھے ناصرؔ کاظمی صاحب کا شعر سنائے ، فرمائے؛ یہ شعر غور سے سنو بیٹا!
؎ زندگی اپنے ہی پیروں پہ چلا کرتی ہے ناصؔر
غیروں کے سہارے تو جنازے اٹھا کرتے ہیں
اور بخدا کہ اُن کے جنازے کو کاندھا نہ دے سکا.. کہ غیر نہیں تھا.. بخدا غیر کو جانا ہی نہیں ، مانا ہی نہیں !
دیکھ لیجیے تب سے لاشہِ وجود اٹھائے لیے پھر رہے ہیں ! اور اُس ہونے میں یہی سمجھ سکے ہیں کہ ہو نہ ہو، گویا کا مفہوم “as if” ہی بنتا ہے ۔ ایسے معنیٰ کی بساط پر بہلنے والا کوئی بہلول، گر دانا نہیں تھا تو اور کیا تھا؟
فرمائے ، دانے کے قہقہے سے دیوانے کا قہقہہ مختلف نہیں !
اور یاد رہے کہ سارے قہقہے قاف کے تھے!
۔۔۔۔فق آف دی قاف ۔۔۔۔