Skip to content

81: آہ کی شام، واہ کے نام۔۔۔

؎ واہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
واہ، صاحب!
ہماری “آہ” کو “واہ” میں آپ ہی بدل سکتے تھے، آپ نے ہی بدلا ہے! بچپن آہ میں ، شباب واہ میں اور ایسی ترتیب سے اگر بڑھاپا آیا تو یقیناً ہائے ھوُ میں گزر جائے گا! اِن بنیادی انسانی اظہاروں میں ایسا کیا تھا ، یہی سوچ رہا ہوں .. اور ڈاکٹر سیدہ عارفہ ؔ زہرہ کے ساتھ فیض ؔگھر میں بیٹھا ہوں، آپ نے کسی فقرے پر برملا قہقہہ لگایا! میں سہم کر رہ گیا، پوچھا کہ آپ کیسے لگا لیتی ہیں قہقہہ! ہستی کی بے چارگی اور اُس پر آدمی اپنی بے مائیگی کا محاسبہ کرے تو کیوں کر ہنسے! اپنے مخصوص انداز سے مجھے دیکھا، اور سر کو جنبشِ ہند دے کر فرمائیں، “ تم بھی سیکھ جاو گے”، خوب قہقہے لگاو گے! خاموش ہو گیا صاحب تعجب سے دیکھتا رہا، انسانی حرکت و سکوت کو! جو ناسوت کے قالب میں کوئی ملکوت ہی تھا۔ دیکھیے ناں صاحب قبلہ طاہر القادؔری کے یہاں منہاج القرآن میں بیٹھا ہوں اور سیر و سلوک کی منازل دمادم ہیں! آپ خطاب فرما رہے ہیں ، کہے ،

عالم ناسوت سے بالا ایک عالمِ ملکوت ہے، اِسی ترتیب سے عالمِ جبروت ، لاھُوت اور عالمِ ہا ہوت بھی ہیں ! اِن جملہ مقامات سے کیا کوئی آیا ہوگا؟ آپ سمجھے آیا یا گیا ہوتا تو ہوگا، لیکن ہاہوت کی ہ، کسی دیوانے کی آہ ہی نہ ہو!
آہ ہی تھی صاحب! کلیجے سے لگائے اِک آہ کو ہم چلتے رہے! یہاں تک کہ شہرِ ترکیہ کے ایک ریستوراں میں بیٹھا ہوں۔ بوقتِ افطار ہے اور ساتھ میں موجود احباب میں جناب پروفیسر ڈاکٹر عثمان تاشتنؔد بھی موجود ہیں۔ آپ نے بھی مجّرد زندگی گزاری۔ علومِ فقہ کے استاد ہیں، مکتب و مدرسہ سے کیمؔبرج تک تعلیم حاصل کی، اور بیسیوں ممالک میں پڑھایا بھی کیے۔ ہم نے پوچھا، کہ اتنے علم کو آپ نے کیسے کاسہِ سر میں قید کیا، اور اگر کیا بھی تو کیا پایا؟ اُنہوں نے کسی دیوانے سا قہقہہ لگایا اور فرمائے ،

“It is very painful”!
یہ تو ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے کلیجے سے ایک “آہ” ازل سے لگی تھی! ہم کہے اب کہ یہ قہقہہ سیکھنا چاہتا ہوں! فرمائے باسط تم بھی سیکھ جاو گے، وقت کی کروٹیں آدمی پر برابر اترتی ہیں۔ لیکن قلبِ سلیم اُن میں فرق کر سکتا ہے، اور دیکھنے والا اگر ب سے دیکھے تو حروف اُس پر وضع ہو جاتے ہیں۔ واہ سے آہ تک کے سفر میں صرف ہ ہی مستقیم ہے!
الغرض، آہ کو ایسے دیکھا، کہ غالبؔ فرمائے ؛
؎ آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
ہم سمجھ گئے کہ اب وہ “عمر” آن پہنچی ہے، اب کہ “آہ “ موثر ہو جائے گی!

Konya 2015 with Baba Mohammed Yahya Khan
with Baba Mohammed Yahya Khan- Konya 2015

اب کہ بابا محمد یحییٰ خان ؔ صاحب کے یہاں نرگس بلاک میں ہوں۔ ایک کرب و جفا کا مارا کوئی ذبیحِ ازل، اگر لڑکھڑایا بھی تو دامنِ یزداں کو ہی تھام رہا تھا۔ کسی سے بھلا کہاں کوئی کام رہا تھا! ہونے کی حالت میں ہوں اور آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں! فرمائے آپ قہقہہ مت لگائیے! مجھے خوف آتا ہے! دیوانے کے قہقہے سے کاہے کا خوف؟ صاحب۔ جو روز و شب میں شریک نہ ہوئے نہ ہی کیے ، وہ دَہر کے سامنے کیوں کر سر بسجود ہوتے؟ وہ قاف قہقہے کیا دو دھاری نہیں تھے؟ کیا عضلات و لحمیات کی کھینچا تانی ، کسی تانی مستانی روح کے سائے نہیں تھے؟ فرمایا راہِ حقیقت میں طالب ایک ایسے مقام سے گزرتا ہے جہاں اُس کے نزدیک دنیا اور اِس کی ساری رونقیں ایک گمنام لطیفے کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتیں ! ایسا لطیفہ جس پر ابدی ہنسی ہنسے والے کا کوئی ٹکڑا تم بھی تھام لینا اور پڑھنا پیشانیوں کی لکیروں کو، دیکھنا کہ خدائےِ لم یزل نے آدمی کو ،
کیا دیا ہے ،کیا بنایا ہے !

اُس پر پھر جی چاہے تو ہنس لیے ، جی چاہے تو رو دیے !
فرمایا” آہ” موثر ہو جائے ، تو “واہ” میں بدل جاتی ہے !
۔۔ آہ کی شام، واہ کے نام۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے