جس کے سر پر دَھرا تھا ، دودھ کا مٹکا،
وہ بہکا ہے ، پِھسلا نہیں ہے! فرمایا دودھ کا لبالب بھرا مٹکا ، سر پر رکھ کر صراط پار کرو! عجب معاملہ ہوا! پل ہی پل تھے، اور سب تھے بھی صراط کے! فرمایا سب راستے “صراط” کے تھے، تو ایسی دوری کیوں؟ دوری اِس لیے تھی صاحب کہ صراط میں سیدھ صرف مستقیم کی تھی! اور مستقیم! آہ تقسیم ہو چکا تھا۔ ایک راستے کے سَو راستے بن چکے تھے! اور سب راستے ، سین صراط کے راستے تھے!
آہ صاحب ! اب کہ راستے پر ہوں یعنی صراط پر ہوں، دو قدم بھر چکا ہوں!
لیکن یہ دو قدم آہ! ہمیں ن میم راشدؔ کی نظم “کوزہ گر” کا جہاں زاد یاد آ گیا!
جی صاحب! اُسی کوزہ گر کے جہاں زاد کو کہتے ہیں کہ آہ، جہاں زاد ! وہ دو قدم صراط پہ کیسے کٹے تھے؟
یہ کون جانتا تھا! ڈگمگاتے پیروں سے چلنے والا کوئی طفلِ ناداں کیا سمجھتا
کیا جان پاتا کہ نفسِ عتیق کو جو نظرِ ثمین ملی تھی ، وہ تو ملی تھی!
اُس بارِ گراں کا، جسے کونین نے اٹھانے کا اِنکار کر دیا تھا! وہ امانتِ ازل کیا یہی حرفِ ب تو نہیں ہے؟ ہونے کا بارِ بُود!لیکن دل بھی قلبِ سلیم تھا ! اگر ذہن علیم ہے تو نظر بھی بصیر ہو گی! فرمایا بے شک ب سے بصیر لکھ دیجیے! ایسے مٹکتے اٹکتے جو چلنے کا قصد کیا تو اندازہ ہوا ، اُس بارِ گراں کا، جسے کونین نے اٹھانے کا اِنکار کر دیا تھا! وہ امانتِ ازل کیا یہی حرفِ ب تو نہیں ہے؟ ہونے کا بارِ بُود!
فرمایا ، مومن کی بصارت سے ڈرو! وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے ! ہم سمجھ گئے ب سے دیکھتا ہے۔
وہ تلمیحات و استعارے ، وہ الفاظ میں چھپے حکمت کے آبگینے! نگینے ہی نگینے! پہنے ہوئے ہیں !
اور ایسے میں سین صراط کی سیدھ میں ، لیجیے اٹھ رہا ہے، تیسرا قدم!
دودھ کا مٹکا اور مَن کا منکا!
فرمایا کبیر داؔس نے؛؎ مالا کہے ہے کاٹھ سے تُو کیا پھیرے موئے من کا مَنکا پھیر دے تُرت ملا دوں توئے
مَنکا، من کا، مٹکا، اٹکا! اِسی سب میں محّو ہیں اور اپنے مکرّم استاد جناب عبداللہ بھٹیؔ صاحب کی آغوش میں ہیں ، فرمائے باسط بھائی!؎ ائے تن رب سچے دا حجرہ ، وِچ پا فقیراں جھاتی ھُو نہ کر منت خواجہ خضر دی تیں اندر آب حیاتی ھُوجی صاحب، آپ کے حجرے میں جو پردہ نشیں ہے وہ کہیں کوئی بسمل تو نہیں؟
شوق دا دِیوا بال اندھیرے، متاں لبھے وسط کھڑاتی ھُو مَرن تھیں اَگے مر رہے، جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھُوہم سمجھ گئے کہ “وسط” کا “ط” ، صراط کا ہی ہے ! صراط ، پل صراط تھی صاحب! مستقیم بھی! جس پر جبینِ شوق سجدہ ریز تھی۔ فرمایا کہ پُل صراط سے کچھ لوگ دوڑ کر گزریں گے، کچھ دو چار قدم چل پائیں گے.. اور کچھ جھٹ سے گر چکیں گے۔ ایسا منظر تھا صاحب! آپ کی صراط کا! کہ ہم سے رہا نہ گیا! لپک لپک کر یہاں وہاں جانے لگے ہیں ! صراط کہ تہہ میں اُترا کوئی غوطہ ظن، کیا دیکھتا ہے کہ صراط کی سین، ب کے بستر سے لگی ہے! صراط کے پُل سے ب کی نیہّ لیے آتے ہیں!
اور جب سلطان العارفینؔ فرمائے کہ “جنہاں حق دی رمز پَچھاتی ھُو” تو اِس میں “حق “ کا “عشق” کا مترادف نہیں ہے؟ اور جس کو عشق کا ذرّہ نصیب ہو جائے ! فرمایا اُس کا ایک قطرہ بھی جملہ مشروباتِ بہشت پر مقدم ہے! آپ لطیف ہوئے اور کہے کہ قطرے کی “ط” ..!
وہ بھی صراط کی ہی تھی! کہ فرمایا خداوند نے ، “ کہ بے شک تمہارا پروردگار سیدھے راستے پر ہے” ، إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ [ هود: 56] یعنی ترجمہ: میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے، کوئی بھی زمین پر ایسا چلنے والا نہیں کہ جس کی چوٹی اس نے نہ پکڑ رکھی ہو، بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔
پروفیسر اؔحمد رفیقؔ صاحب سے ملی اِسی آیت کا ایسا عرفان ملا کہ خداوند پہ کیا جانے والا بھروسہ ! جی ب سے ہی تھا! اور تو اور وہ صراط کی سیدھ بھی “ط “سے ہی تھی! ہمارے تہجی کی کوئی خطا اگر تھی تو صراط کی ط سے ہی تھی!
یا ، بُود، یا جُود، یا ودود!
،،،،،،،،،