Skip to content

79: ہوا نہیں تھا؟ ہو رہا تھا!

Gaziantep 2012, Turkiye
Gaziantep 2012, Turkiye

ایک فلسفی صرف دل کا آنگن ہی سنوار سکتا ہے۔
فرمایا کہ کسی پیشے کو کمتر نہ سمجھو!
نہیں سمجھے صاحب! خواہ وہ "کاسِب” ہو یا کسبی! ہم سمجھ گئے کہ کاسب ہو یا کسبی ، کسب تو ہے ! اور کسب کا ہونا بہ ہر طول سبب کے ہونے سے ہی ہو سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ سبب کا ہونا ، ب سے ہی ہونا تھا! خیر آپ “ب” سے لکھ دیجیے ! لیکھ دیجیے ب کی برکتوں کو ، ب چاریوں کو ! آہ صاحب ، اب کے تایا جیؔ کے ساتھ اُن کے مکان کے باورچی خانے میں کھڑا ہوں اور بظاہر چوتھی جماعت کا طالبِ علم ہوں! ہمیں پچکارتے ہوئے فرمائے ، بیٹا ب سے کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہوتی! ہم گڑبڑائے اُنہیں کہے وہ کیسے؟ فرمائے دیکھو بدنصیب، بدبخت، بدتمز، بد اخلاق جیسے بیسیوں الفاظ ہیں۔ ہم نے جھٹ کہا کہ “ب سے برکت” بھی تو ہے “ب سے بسمِ اللہ “ بھی، مگر خیر وہ تو عربی کہیے ، سمجھ گئے کہ یہ نہیں کہنا کہ آپ فارسی سے نابلد ہیں بد تہذیبی ہو جائے گی، ہم کہے “بد” ہٹا دیجیے ! اور پھر دیکھیے تماشا “خیر” کا!
نیک و بد کی دوئی ہمیں لاحق ہو نہ سکی تو کیا کرتے؟
اور کمتر کو ، کم نہیں ، ہم “تر” ہی سمجھے! تراوٹ و تھکاوٹ سے بھر پور چہرہ ! اماں نے دعا دی کہا “لغالغا جا ، اَتے نصیباں دا کھٹیا کھا”!
کھا ہی رہے تھے صاحب! ٹھوکریں ہی ٹھوکریں! نصیباں کیا تھا صاحب؟ ہونے والے نے ہونے میں ہوتے ہوئے ، جو “ہونے کی جوت” لگائی تھی وہ کیا تھی؟ اور جو اماں نے “لغا “ کہا تھا ، وہ “لگا” تھا صاحب! لگ گیا تھا اور ایسے لگا تھا کہ اُس نقطہ و نطفہ میں جا ٹھہرا تھا. . . ناسوت کے قالب میں! ٹھہر چکا تھا اُس مقام پر کہ جہاں سے سفرِ زیست شروع ہوا ہے! ہم تو “ہوا ہے “ یا “ہوا ہو” میں ہی اٹک گئے تھے! یہ کیسی ہائے ہو تھی؟
ہائے ہو، پر توقف فرمایا ، کہا سلطان العارفین سلطان باھُو فرماتے ہیں

وہ مقصد کیا کسی کا قصد تھا؟ ہوا نہیں تھا؟ ہو رہا تھا!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے