Skip to content

78: دودھ کا مٹکا!

ہائے! یہ میرا دل کہاں جا، اَٹکا!
آپ پوچھے مٹکا بھی بھلا کبھی اٹکا ہے ؟
اٹکتے مٹکتے جو چہرے تھے ، کہیں اٹک رہے تھے تو کہیں بہے چکے تھے!
ہم یہی سوچ رہے ہیں اور مادھو لعل حسین ؔ کے مزار کی دہلیز سے سر جوڑے ہیں ! آپ نے چُپکے سے کہا؛

آپ سمجھ چکے تھے صاحب کہ بے پروا بھی ب سے ہی ہے! یہ سمجھنے کی دیر تھی کہ آپ نے بانہوں میں لیا اور دبوچا بھی تو ب سے ہی ! بھینچا بھی تو ب سے ہی ! شاہ حسینؔ کا من اٹکا تھا تو ہمارا بھی اٹک گیا! ذرا سا پیر مٹک گیا! لڑکھڑاتا ہوا ذرا سنبھلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپسؔ میں ہوں اور چچا جان ؔ کی معیت میں چہل قدمی کر رہے ہیں ۔ آپ فرمائے کہ جس کے سر پر دودھ کا مٹکا دھرا ہو، وہ اٹکے کیوں کر، لڑکھڑائے کیسے! ہم سمجھ گئے کہ کہتے ہیں ، لڑ کر گھر جائے کیسے! یہ سب آنے جانے کے بہانے لگائے کیسے! ایسے میں تُرنت غالبؔ نے حقےّ کی نَے دابی اور فرمائے؛

وہ کام ، کیا کام تھا صاحب؟ کیا وہ کام یہی تھا کہ آپ کو چہروں میں تلاشتا پھروں؟ سرِ بازار ناچتا پھروں؟ آہ صاحب ! تو کیا ناچا نہیں تھا میں ، اُن گلیوں میں جن پر اکڑ کے چلنے والے ٹھہر نہ سکتے تھے!
میں ٹھہرا نہیں تھا؟
کیا ٹھٹھر ٹھٹھر کر ٹھہرا نہیں تھا؟
کہ دیکھتا تھا آئنوں کو!
کاف چہروں کے زاویوں کو، کیا لام سے لکھتا نہیں تھا؟
جو کام غالبؔ کو آن پڑا تھا، وہ “کام” کیا” کام” ہوگا؟ یہی سوچتا ہوا شہر ِ بَؔون کے بازاروں میں خود کو کھڑا پاتا ہوں ! اور دُہراتا ہوں ؛

؎ کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
بنائے کیسے بنتا، بگاڑ بگاڑنے سے بن سکتا تو، بننے والا بنائے بنتا! ایسا تھا ہی نہیں ! بناو کی جڑ بگاڑ میں ہے اور بگاڑ ہی سے بناو کی بُنت ہے ۔ ہمیں آپ کا فرمایا یاد آ گیا کہ بلاشبہ بننے بگڑنے کے نیرنگ میں ہر شے بے رنگ تھی! اور جو تھا وہ صرف روشنیوں کا عکس تھا! چچا جانؔ چہل رہے ہیں اور ہم ٹہل رہے ہیں ، اِسی چہلنے ٹہلنے میں جی جو بہلا تو…
ب سے ہی بہلا!
آپ جان گئے کہ غاؔلب دادا کے سر سے جو “بوجھ” گِرا تھا، وہ بہلاوَوں کا بوجھ تھا! بننے بگڑنے کے بہلاوَوں کا بوجھ !
“جو ہو سکے تو اُتار دیجیے !”، ہم کہنے ہی والے تھے کہ چچا جان “اُتار دیجیے” !
آپ نے اُتارا تو سہی ! مگر اپنے سر سے ! اور رکھ دیا ہمارے سر پر!
لبالب بھرا دودھ کا مٹکا!

at Mizar Shams Tabrez, Konya-2012

فرمائے کہ غوث علی شاہ ؔپانی پتی سے روایت ہے ، جِسے ممتاز مفتیؔ نے اپنی کتاب “تلاؔش “ میں بھی نقل کیا ہے، “ ایک سالک ِتوحید، اپنے استاد سے درس لیتا رہا،ایک دن الف اُستاد فرمائے ، کہ اب مزید تعلیم کے لیے فلاں شہر کے حاکم کے پاس جاو تو تمہیں باقی کا گھیان اُپلپت کریں گے۔ مریدِ باصفا چلتا رہا، چلتا ہی گیا! وہاں چیلا چل رہا تھا، یہاں ہم چچا جان کے ساتھ قدم بہ قدم ہیں ! فرمائے، سالکِ توحید وہاں پہنچا تو کیا سیکھتا ہے ، کہ کیا ٹھاٹھ باٹھ ہیں، آن شان ہے.. اور حاکم کہ جس کے گھڑ سوار سینہ سَپر ہیں، جس کی باندیاں سَراپائے قہر ہیں ! وہ اُنہیں کے جَلو میں محوّ ہے ۔ دربان جانے نہیں دیتے ! حضور آنے نہیں دیتے ! موحِد بہت حیران ہوا کہ مجھ سے کچھ بھی نہ فرمائے ، یہ تو اپنے آنے جانے میں مگن ہیں ..

بے شک ! انتظار کی گھڑیاں صاحب اُس چیلے کی سی کاٹنی بہت مشکل تھیں! غالبؔ نے تائید کی فرمائے ؛

آہ! جب تاب ہی ب کے سِوا ہو تو کیا ہو! ہم نے آہ بھری اور چیلے کی سی بے صبری سے کٹی وہ انتظار کی گھڑیاں کاٹ چکے تھے۔ایسے میں موحِد بے تابی سے انتظار کر رہا ہے کہ کب تعلیم فرماویں گے؟ کب راہ سُجھاویں گے! راہ کیا تھی صاحب! آہ ہی آہ تھی!

فرمایا شیخ نے کہ اِس کے سر پر دودھ کا مٹکا رکھ دیا جائے اور اِسے بیچ بازار کے شریر چہروں میں لے جایا جائے ، کوئی ہنسی کرے تو کوئی تضحیک! کوئی واہ کہے تو کوئی آہ بھرے! بس مٹکا ٹوٹنے نہ پائے !
سر پر دھرا وہ لبالب بھرا مٹکا! فرمائے ہمارے سر پر بھی دھرا ہے!
ہم پر بھی دھرا تھا! ہم عرض کیے اُتار دیجیے ! آپ نے ہم پر ہی دھر دیا.. کہ اٹھائے نہ بنے!
صراط پر دوسرا قدم ہے ! اور یہ قدم بھی آپ کے دم کی طرح بھرتے ہیں !
اب کہ استاد عبدالخالؔق صاحب کے یہاں غریب آباد کالونی چکلالہؔ میں ہوں ، اُن کے ساتھ پہلی ملاقات اباؔ میاں اور تایاؔجی کی موجودگی میں ہی ہوئی تھی۔
کیا باکمال لڑکپن پایا تھا ہم نے،
جہاں دیکھا کوئی سایہ کھڑا پایا تھا ہم نے،

وہ سائیں سائیں کرتے سنّاٹے، سیاہ سائیوں میں جو کھوج بیٹھے، تو وہ ب سے ہی بیٹھے! آپ کے یہاں ب بیٹھک میں ہوں اور آنے والے ب بیماروں کو آپ دَم فرما رہے ہیں ۔ ابا میاں اور تایاجی بھی ہمارے ساتھ موجود ہیں مگر ب سے نہیں بیٹھے! ب سے بیٹھنے والے نے عبدالخالق صاحب کو نہ صرف دیکھا بلکہ ب سے ہی دیکھا۔ یہاں تک کہ جب ہماری باری آئی تو آپ نے اتنا پیار کیا، کہ سپید سینے سے لگا لیا! پھر ابا میاں اور تایا جی جو تعجب سے دیکھ رہے تھے ، اُنہیں فرمائے ، بچے کو” سایہ” نہیں ہے!
ہم نے جھٹ کہا سیاہ سائیوں سا کوئی سایہ نہیں ہے!
آج تک کہیں کوئی آیا نہیں ہے!
کوئی آتا تو تب صاحب ، جب کوئی جاتا ہوتا!
آتا جاتا کے مصدر آنا جانا سے تھے ، اور آنا جانا حرکت کی علامت ہے !
جب کہ سایہ ہے، مگر ہے ذوُالجلال کا!
سر پر دھرا تھا . . .
فرمائے لیجیے
اِک اور رکھ دیجیے !
دودھ کا مٹکا!
۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے