بھاٹؔی گیٹ لاہور سے چلتی بیالیس نمبر ویگن کا پٹ کھلا ہے اور لاوڈ اسپیکر پر عالمگؔیر صاحب کا گیت چل رہا ہے۔
وقت آپ کا ہی تھا صاحب ہم چپکے سے بیٹھ لیے ، اوائل لڑکپن ہے اور کہیں کو جاتے ہیں ۔
؎ یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جُلتے ہیں تیرا نام نہیں لوں گا میں تجھ کو شام کہوں گا!
شام کہنا کیا نام لینا نہیں تھا؟ آج تک یہی سوچ رہا ہوں ، کہ” شام” بھی تو “رام” کا ہی نام ہے ۔ شام ، کھنشام، اِندر، اِندرا، رادھا ، کرشنا، کیا سب نام ہی نہیں تھے؟ نام ہی نام تھے صاحب، ملتے جلتے نام، ایک سی صورتیں، ایک سے کام !
فرانسیسی الجیرین فلسفی ژاک داریاؔ نے کہا ؛
There is no outside-text
متن کے سِوا متن نہیں تھا، متانت کہاں ہوتی؟ آج کی شام بھی پہروں آپ کو یاد کرتے رہے ، یاد کرتے کرتے ہی پہر کٹ رہے تھے۔ شام آپ کے ناموں کی نذر ہوئی ، ایسے میں کوئی بھنڈارن بھجن گاتی ہے ؛
شامؔ پیا موری رنگ دے چُنریا بِنا رَنگائے میں گھر نہیں جاوں گی، بیت جائے چاہے ساری عمریا
فرمایا واصفؔ علی واصف نے کہ زندگی یاد کے سوا کچھ نہیں ! ہم آپ کے مزار کے ساتھ ٹیک لگا ئے ہیں اور حالتِ مراقبہ میں ہیں کہ کہیں سے لَتا جی ؔ کی آواز آئی ؛
؎ اِک پیار کا نغمہ ہے ، موجوں کی روانی ہے زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے
ہائے صاحب ، تولنے والے نے جو بھی تولا، دیکھ کر ہی تولا، بھاو بھاو الگ ، بھاگ بھاگ الگ! آہ صاحب ، تراشیدہ نکورے لفظ جو ہمیں نہ کاٹ دوڑتے تو کیسے بتا پاتے ، کہ خاموشی کی تلاوتوں سے دل قرار پاتے ہیں۔ چہروں پر مقدر کی سِلوٹیں تو بہ ہر طور تھیں لیکن آئنوں کے بھی بھاگ بخت تھے۔ آپ نے جَدّول نکالا اور ب سے بھاگ، بخت لکھ دیے! اور تو اور، آپ نے فرمایا، کہ بھاٹی گیٹ بھی تو ب سے ہی ہے ، اور بَون میں بسنے والے بنجارے کی بے چارگی؟
خاموشی کی تلاوتوں سے دل قرار پاتے ہیں۔ چہروں پر مقدر کی سِلوٹیں تو بہ ہر طور تھیں لیکن آئنوں کے بھی بھاگ بخت تھے۔
جی، وہ بھی ب سے ہی تھی!
مَروی ہے کہ ، فرمایا امام ؑ نے کہ العلم نقطة كثرها الجاهلون، علم ایک نقطہ ہے ، جِسے جاہلوں نے بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے ! مگر آپ ہی سے ایک اور قول منصوب ہے ، فرمایا ، انا النقظۃ تحت البا۶ ، یعنی میں “بٰ” کے نیچے والا نقطہ ہوں ۔۔۔ (نور الثّقلین، ج۱، ص ۲۲)۔
علم ایک نقطہ ہے ، جِسے جاہلوں نے بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے !
الف بے، علیے. . .
کیا سماں ہے کہ اباؔ میاں کے ساتھ لاہور کے مضافاتی قریہ میں بیٹھے ہیں ۔ آپ نے بھینسوں کا دودھ دوہیا اور بالٹی سے گھر لے جانے کے لیے اُنڈیلنے کے بعد ہمیں پُر شکوہ پنجابی میں تنبیہ کیے ، شہزاد پُتر ! یاد رکھو ! اگر علم حاصل نہ کیا تو تمہیں جانور چَرانے پڑیں گے۔
آج ابا میاں ؔ کے انتقال کو بیس برس ہونے کو ہیں ، کہنا چاہتے ہیں کہ ابا ؔمیاں ، آج بھی جانور ہی چَرا رہے ہیں ! شاید ہم کوئی اور علم حاصل کرتے رہے تھے ، یا شاید کام دہر میں تھا ہی چوپانی! روایت کیا فرید الدینؔ عطار نے کہ رابعہؔ بصری ایک روز شہرِ بؔصرہ کے بازار میں دن دوپہر لالٹین لیے کھڑی ہیں ۔ کسی نے پوچھا ، بی بی ! کیا ڈھونڈتی ہیں۔ فرمانے لگیں انسان کی تلاش کر رہی ہوں!
فرمانے لگیں انسان کی تلاش کر رہی ہوں!جی صاحب حیوان ہی حیوان تھے ، کسی لومڑی نے کوٹ پتلون پہنا ہے تو کوئی بندر بھی ساتھ ہی بیٹھا ہے ! بِجو، بھیڑیے ، سانپ نیولے !
بدن کو دن بہ دن دیکھنے والی کوئی نظر ِثمین، ثمین تو تھی ہی امین بھی تھی!
کہ وہ جو لفظوں کے سِوا تھا، وہ جو آوازوں سے حل نہ ہوا تھا!
وہی “نقطہ “ ب کا نقطہ تھا!
س کے ساتھ ب کی خیر!
سب کی خیر
۔۔۔۔۔۔۔