
پوچھا، جس کو جنگل میں منگل مل جائے ، وہ ہفتہ بھر کے باقی دنوں کا کیا کرے؟
فرمایا اُس کے لیے دیگر نہیں ہے ، اُس کا کوئی گھر نہیں ہے ۔ لہذا جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو، وہ ہر دن کو منگل وار سمجھ کر گزار سکتا ہے ، مضائقہ نہیں ہے ! آپ سمجھے ذائقہ نہیں ہے! ایسا ہی تھا صاحب ، ذائقہ کہاں ہوتا ، جب ہفتہ بھر کے ساتوں دنوں میں بھی آدمی کو روز منگل ہی ملے تو ذائقہ نہیں رہتا! ذوق ذکاوت بھی ردّ و بدل کی شکار ہے ۔۔
نفسِ عتیق کی نظر، بہ ہر طور نظرِ ثمین تھی!
نفسِ عتیق کی نظر، بہ ہر طور نظرِ ثمین تھی!
کہ نہ بہکی ، نہ ٹھہری! وہ نظر جو پار دیکھتی تھی، اب بیوپار دیکھتی ہے ! دھرم کا، کرم کا بیوپار سجا ہے ! کنہیا، کچھ گاو ناں!
؎ چلتے چلتے یونہی راہ میں کوئی مل گیا ہوگا!
راہ میں کیسے کیسے نشیب و فراز آئے ، یہاں تک کہ احمد فرازؔ صاحب بھی آ گئے ۔ سبھی شاعروں ، ادیبوں، صوفیوں سَنتوں سے پرے بھی کیا کوئی مقام تھا؟ اگر تھا تو وہاں کون کھڑا تھا؟ جس نے زندگی کو معنیٰ و مفاہیم سے پُر کر لیا تھا۔ جو ہونے کے سلسلوں میں سلسلہ وار ہوتا رہا تھا۔ کوئی کھڑا سمجھا کوئی کہے لیٹا ہوا ہے .. ہر کھڑا لیٹا ہوا تھا صاحب! اور جو لیٹا ہو وہ؟ ہم پوچھنے ہی تھے کہ آپ کہنے لگے ، جو لیٹا ہے وہ لام سے ہی لیٹا ہوگا! کہ بدن تن بدن تھا!
تن بہ دِن تھا، آپ کہے تن بہ روز ہو سکتا ہے ، تن درست ہو سکتا ہے ، بہ دن نہیں ہو سکتا، بد دل تو ہو سکتا ہے ناں؟ تو ہو گیا تھا صاحب، تن کا اُجلا ، من کے میل کو کیا جانے !
میلے کچیلوں کی سوداگری بھی دکھ اور درد ہی ہوتے ہیں ، یہاں سے لیے وہاں رکھ دیے !
میلے کچیلوں کی سوداگری بھی دکھ اور درد ہی ہوتے ہیں ، یہاں سے لیے وہاں رکھ دیے !
رکھ دیے، پی لیے یا لکھ دیے ! لیکن ایسے لکھے میں بھی شبِ ازل کا وہی عیب ہے
جسے ہر زفاف و لحاف میں چھپایا جاتا ہے .. تن کا میلا ، مَن کا رسیا!
خیر صاحب، اب کہ موسموں کی کروٹوں میں ہم جینے لگے ہیں ، مرحلے در مرحلے جو تھے وہ گزرنے لگے ہیں .. اب، آب مصفا ہے کہ رُکنے کا نہیں !