
ازل سے ابد تک کا انتظار لاحق تھا جسے، وہ پردہ نشیں کچھ کہتا ہی نہیں !
کیوں کہے ، کہ اُس کے لیے ، کہنا سننا ، دیکھنے چھُونے کی طرح ایک سا ہے !
کہا بسطام ؔ کے بایزیدؔ نے کہ دس برس تک اُنہوں نے اپنے دل کی نگہداشت کی، اور دس برس تک دل نے اُن کی نگہبانی کی، مگر اِس پر رکے نہیں، بلکہ فرمائے، کہ اب دس برس ہونے کو ہیں ، نہ مجھے دل کی کچھ خبر ہے نہ ہی دل کو میری کچھ پُرسش! اِس پر کوئی صاحب بگڑے اور کہے اُنہوں نے دل نہیں کہا تھا اُنہوں نے نفس کہا تھا! تو ہم ترنت لپکے کہا، جو بھی فرمایا تھا بایزیدؔ نے عربی میں فرمایا تھا! تو خیر ہم انہی اُلجھنوں میں تھے کہ احسان دانشؔ کا کلام استاد شفقت اماؔنت علی خان صاحب گنگنانے لگے ، سوز سے کہنے لگے ؛
؎ پُرسشِ غم کا شکریہ کیا تجھے آگہی نہیں ؟؟؟؟
ہم سمجھ گئے کہ پُرسش حد سے بڑھ جائے تو پرستش میں بدل جاتی ہے ۔ آپ نے ستائش کی، پھر فرمایا، کہ پَرستش تو سمجھ میں آ گی مگر پُوجا کیا ہے؟
ہم جھٹ سے کہے پُوجا وہی ہے جس میں دُوجا نہ رہے !
ایسے میں میڈؔم نور جہاں نے ترنم سے گایا؛
؎ ہم نے جس جس کو بھی چاہا تھا تیرے ہجراں میں وہ لوگ آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تُو تھا
سُن کر فرمائے ہر دن کے ہنگاموں کی طرح کی ہر رات کی آسودگی بھی علاحدہ تھی۔ دن کے اُجلے اور رات کی تاریکی میں انسانی آنکھ کو ہی اختلاف تھا، ورنہ نُور و ظلمت میں دوئی کا عیب کہاں !
سُنو، وقت کی کروٹیں ایک سی ہموار نہیں ، اِسی لیے تم آئندہ کی طرح خود کو تیار رکھنا۔
چنانچہ آپ نے داؔنیال کو یہی کہا تھا کہ سُنو، وقت کی کروٹیں ایک سی ہموار نہیں ، اِسی لیے تم آئندہ کی طرح خود کو تیار رکھنا۔ زندگی کا کوئی پہر بھی خاموشی سے خالی نہ جائے ، ہر نظارے کو چپکے سے دیکھنا، دیکھنا کہ راستوں میں بھٹکتا کوئی وجودِ نہاں اگر دیکھے بھی تو چکھتا نہیں ہے ! وجودِ نہاں کا دیکھنا ، چھُونے اور چکھنے سے بالا ہے!