Skip to content

74: جبینِ شوق فرصتوں کے ساتھ

جبینِ شوق کو رُخصتیں تھیں ،
فرصتیں ہی فرصتیں تھیں کہ جھکی رہتی !
سرنگوں رہتی ! مولائے کُل کے سامنے! جی ہی جی میں خود سے کہتا ہوں اور خود کو ڈاکٹر حمیدؔ صاحب کے ڈینٹل کلینک میں پاتا ہوں ، ایک طرف دیوار پر اسٹیکر چسپاں ہے ، جس پہ یُوں شعر لکھا ہے؛


عجیب زندگی عجیب بندگی، کس جبینِ شوق کو میسر ہوئی تھی؟ آپ نے سینے سے لگا کر پوچھا! اُسی کو صاحب جس کے ہاتھوں میں زمانوں کی لگامیں ہیں ، وہ جو ہانکنے والا سیدھے راستے پر ہمہ دم ہے .. اُسی کے شوق میں جبین جھکی ہے تو کہیں پیشانیاں گرد میں اٹی ہوئی ہیں ! اُس کی چاہت کو جو فرصتیں ملیں تو رُخصتیں بھی لے لینا! ہم یہی سب نوٹ کر رہے تھے کہ غالؔب دادا کا کہا یاد آ گیا ؛
؎ بنا کہ ہم فقیروں کا بھیس غالب ؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

اِس ایک شعر نے گزشتہ دو دہائی ہمارا تعاقب کیا ہے صاحب! اب بھی فقیر ہی ہیں لیکن نہیں جانتے تھے کہ فقیروں کے بھیس میں جو جو تماشے آدمی دیکھ پاتا ہے وہ کسی اور بھیس میں ممکن نہیں تھے ! فقیروں سا بھیس ، فقیروں کا کھیس، لوٹا، مصلیٰ اور سوٹا! ہم کہے تماشائے اہلِ کرم تو غالب دیکھ گئے ، ہم تماشائے اہلِ حرم دیکھتے ہیں ! اِسی تانکا جھانکی میں داتا ؔحضور کے مزار مبارک پر گمشدہ ٹیک لگا ئے ہوں تو عبدالحمیدؔ عدم فرمائے ؛

At the Shrine of Bahauddin Zakariya , Multan-2008

ہم نے مزار کی اُس چادر میں خود کو کتنا ہی سمیٹا تھا، عطر پاشی اور ہائے ہو میں، یاھُو اور باھوُ کی موجودگی بھی تھی، ہم چپکے سے رولیے اور عدؔم کا قطع سنانے لگے۔ ہم سے بنجارے نے درباروں پر مزار سرہانے جو زائرین کو دیکھا تو سمجھ گیا جبینیں تو یقیناً ہیں اور آستانے بھی ہیں ، آستانے ہوں گے تو ستانے والے بھی ہوں گے! جو بھی تھا جبینِ شوق نے ہر ہر گام پر سجدہ بجا لایا! آہ صاحب! اب کہ قبلہ علامہ طاہر اؔلقادری کے یہاں منہاج ٹاون میں شہرِ اعتکاف میں ہوں، حالتِ کاف میں ہوں اور ہمہ تن گوش ہوں ۔ آج سوچتا ہوں وہاں سُنے وہ قصےّ ایل ایس ڈی کر کے سننے چاہیے تھے! تاکہ جبینِ شوق جو چشمِ تخیلِ طفلی سے جو بُن پاتی تو کیسے سمجھتی اُن تذکروں کو، حاشیوں کو، جنہیں لکھنے والے قصہ گو، کیا مجھ سے ب کاری نہیں تھے؟ ب سے آری، ایک الف سے لگا یاری!
جبینِ شوق فرصتوں کے ساتھ ، روگ رخصتوں کے ساتھ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے