وجود کی تکڑی سے آدمی کیا تولتا ہے؟ ہم پوچھنے ہی پائے تھے کہ آپ نے کہا، سُن تو بنجارے کیا بولتا ہے؟ بولنا کیا تھا صاحب، جو جسم کی تکڑی سے حروف کے اوزان کرے اُس حسابی نے بھلا کیا بولنا ہے؟ تول کر بولنے والے نے جو بھی کہا تول کر کہا، تول کر کہنے والا مول بھی تو مانگتا ہے! مانگے نہ تو کہاں جائے؟ الف انؔقرہ میں دس برس پڑاو کیا اور وہاں سے ب بَون کی بنجارگی مول لی ہے! آپ پوچھیے ، تول کر ہی مول لی ہوگی! نہیں صاحب تولنے والی تکڑیوں میں ہر ہر حرف کا وزن تولا نہ گیا۔ کبھی بات کی بھی تو بولنا نہ گیا!
ہمرے پاس گگن کی خاموشی ہے! فضائے بسیط سے آسمانِ بالا تک کی مبارک خاموشی!
بولنا، تولنا اور تولتے ہوئے بولنا، تجارانِ زمن کے کام تھے، ہمرے پاس گگن کی خاموشی ہے! فضائے بسیط سے آسمانِ بالا تک کی مبارک خاموشی! خاموشی پاک ہے اور مبارک بھی! صاف شفاف خاموشی! اُسی خدائے لم یزل کی خاموشی جسے مبارک صحیفوں میں خوش خطی سے لکھا گیا ہے ! اُسی خیمہِ خاموشی میں جو قاف قائم ہے ، کیا دیکھتا ہے کہ تن کا ترازو تول رہا ہے. . .

ہر گزرتے چہرے کو ، ہر ہر وجود کو جو ثبات کی خاطر گامزن ہے، دیکھ رہا ہے۔