
جی صاحب، جنت کا شوق سب کو ہے! لیکن جنت کی دوسری شام کے بارے میں کوئی کم ہی جانتا تھا! آپ کہے “کم” ہی جانتا تھا! آنے والے کو come اور جانے والے کو “گو” کہتے ہیں ! یہ تو حالات ہیں ! گو فلان گو ! کے نعرے لگ رہے ہیں ! اور آنے والے کو “کم” کہہ رہے ہیں صاحب! حالاں کہ آنے والا کم آنے والا ہے؟ آپ پوچھے تو ہم “کب” سمجھے! کم آنے والا ، کب آنے والا تھا؟ لفظوں کے طلسم ہیں اور مہک ہی مہک ہے ! جی صاحب ! چہک ہی چہک تھی ہر اُجلی صبح کے دامن میں ! اور ہر رات کی آستیں میں کہیں لہکے ہیں تو کبھی بہکے ہیں ! بہکنا، لہکتے ہوئے بہکنا تھا صاحب! کہ آج جنت میں دوسری شام ہو گی! وہاں لَتا جؔی کی سُرئیلی آواز آئی،
؎ آ کے تیری بانہوں میں ہر شام لگے سِندھوری!
ہم نے آواز لگائی ؛
میرے مَن کو مہکائے ، تیرے مَن کی کستوری !
کہیں کستور ہے اور کہیں دستور! خیر دست و کست کے کیا کم و کاست ہیں، اِس پر پھر کبھی بات کریں گے !
کہیں کستور ہے اور کہیں دستور! خیر دست و کست کے کیا کم و کاست ہیں، اِس پر پھر کبھی بات کریں گے ! ابھی کے لیے کستوری کافی ہے! آپ مِسک ، کستوری اور وانیلا کی خوشبو بن کر اترے تھے ! آپ کی جادو نگری میں ، ہر آسیب مہک رہا تھا! لفظوں کے طلسم میں کوئی نقطہ بہے جا رہا تھا! کہے جا رہا تھا کہ “جنت کی دوسری شام” کیسی ہو گی!

`ہم سے تو بَوؔن کی شامیں نہیں سنبھلتیں، کہ آسماں پر تارے ہیں! قاری صاحب کہے سِپارے ہیں ! حلوائی لپکا بولا ، صاحب! نمک پارے ہیں !! رہے ہم تو ہمیں تاروں اور سپاروں میں فرق معلوم نہ تھا ! تارے سب تمہارے ہی تھے! جی آپ کے نہیں تھے، تم کے تھے! ہم ریکارڈر کو ٹھیک سے رکھے ، تو مَہدی حؔسن صاحب کہ آواز آئی
؎ رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے !
وہاں ابو علیؔ الجبائی کے نزدیک صرف احوال ہیں ! قال نہیں ہیں !
سامانِ ہستی!!! آپ کے دم سے ہی قائم ہے ! قوّی و قیّوم جو ہے ،وہ اونگھتا نہیں ہے، سوتا نہیں ہے ! وہاں شام نہیں ہوتی! وہاں ابو علیؔ الجبائی کے نزدیک صرف احوال ہیں ! قال نہیں ہیں ! قیل و قال میں اُلجھے نقّال! نقّاد! جی ہم جنت میں دوسری شام بسر کر لیں ؟
پھر آپ کو سب بتائیں گے ! کیا آپ چلے آئیں گے؟
کم آئے نہیں ، کب نہیں آئے تھے آپ! اب آ گئے ہیں اب سندھوری شام ہو گی!