لبالب بھری تشنہ لبی
یہ سُنتے ہی ایک ہنگامہ سا بپا ہوا۔ پہلے دادا غالبؔ کہے ؛
؎ ساقیِ کوثر کا بندہ اور تشنہ لب ہائے غضب ہائے غضب !
یہاں چچا جان نے کسی مجلس میں منقبت پڑھتے ایک نوخیز کی ویڈیو بھیجی ،
؎ حُسین بانٹ رہے ہیں نجات لے جاو چند آنسووں کے عوض کائنات لے جاو
ہماری تشنہ لبی دو آتشہ ہو گئی! کہ “کائنات، آنسووں کے عوض”،
محکمہ ِ اوقاف والے ذکات لے گئے ، گداگر خیرات لے گئے ، یہاں مومنین نجات کے طلب گار ہیں تو ذاکرین “مرعات” کے، ایسے میں ہم پینسل سے کاپی پر نوٹ کر رہے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ صاحب، ایسی ٹولیوں میں جو فلسفی ہیں، وہ کیا مانگتے ہیں؟
فرمایا ، وہ ثبات مانگتے ہیں ! ہونے کا ثبات!
ثبات تھا ہی ہونے کا!
اور مئے خوار؟
فرمایا، شراب مانگتے ہیں!
ایسے میں عزیز میاؔں قوّال سنائی دیے ، فرما رہے ہیں ؛
؎ بڑی حسین ہے زُلفوں کی شام پی لیجیے
ہمارے ہاتھ سے دو چار جام پی لیجیے
وہیں استاد نصرؔت فتح علی خان صاحب نے گرہ لگائی؛
آگے چل کر حساب ہونا ہے
اِس لیے بے حساب پی لیجیے
پی لیجیے ! پی لیجیے!
لب لبالب ہیں مگر تشنہ لب ہیں ! ہم سوچنے لگے کہ ، پی لیجیے ، پی لیجیے، کی تکرار کیوں کر؟
ایسے میں میرے مولا جلال الدین رومیؔ فرمائے ،
؎ نہ من تنہا در اِین مے خانہ مستم جنید و شبلی و عطار شد مست بہ رُوئے پاک شمس الدین تبریز کہ ملاں برسرِ بازار شُد مست
( فرمایا کہ اِس مئے خانے میں صرف ہم تم نہیں ہیں یہاں جنیدِ بغداد، شبلی اور فرید الدین عطار بھی مست ہی رہے ہیں اور یہ تو ہمارے سیدی مولائے تبریز کے چہرہ مبارک کا فیض ہے کہ ہم تم بھی بازار میں مست ہو گئے ہیں)
آپ نے جہان کو مئے خانے سے تعبیر کیا، کسی نے نگاہوں کو پیمانے سے ! الغرض طالبِ دنیا نے جہان کو آنے دوانے کے برابر سمجھا تو فقیروں نے آنے جانے سے ! آپ سوچنے لگے کہ کہوں مثنوی کے اشعار ہیں یا نہیں اُس پر بھی بحث ہے اور دوسرا قافیہ ردیف بگڑ چکا ہے، مگر ابھی اتنا ہی کہے کہ آپ ترجمہ دُرست کر لیجیے ، ہم نے جھٹ سے کہا کہ ہر ترجمہ ایک تاویل ہے اور ہر تاویل کی تفصیل بھی ہے ۔
۔۔۔ حالتِ تفصیل مبارک۔۔۔۔