لکھو! الف مد آ، ب ساکن ! آب! کہا ٹیچر نگؔینہ نے ، ہم ابھی تختی دھو کر گاچی لگا کر لَوٹے ہی تھے، بیٹھ گئے لکھنے لگے ، تو رہا نہ گیا، آب کی بجائے آپ ہی لکھا صاحب! آپ کو ہی لکھا کیے ! آپ ہی کو دیکھا کیے !
فرمایا کہ فقر کی اوّل منازل یہی ہیں کہ آدمی خود کو دوسرے کا سِوا نہ سمجھے، موجود کو ماسِویٰ کے ساتھ دیکھے!
یعنی ب سے دیکھے!
ہماری تشنہ لبی آب سے کہاں بجھتی صاحب! آپ سے ہونے والی سیرابی آب سے ہر گز نہ ہو پاتی!
آپ آپ آپ !
؎ تشنہ لبی مٹائیے کارِ ثواب جان کر
اب کہ جامعہ بَون میں ہوں اور پوچھا گیا آپ کے کیا “ارادے” ہیں ؟
ارادے ، ادارے،
صدیوں پر پھیلے بیسیوں دائرے !
دیکھ رہا ہوں تو اتنے میں کہیں ٹیپ رِیکاڈر پر شور سنتا ہوں ،
؎آئی رہے جائی رے ، زور لگاکے ناچو رے!
ناچ رہے ہیں صاحب!
شدّت ِ پیاس سے بلکتا کوئی مُنّہ روتا ہے ، تو کوئی بالی سسکتی ہے ! اباّ میاں کو آہیں بھرتے دیکھا، مگر ہم نے “آہ” تک نہ بھری! ہم ہٰ کی مد کو دیکھتے رہ گئے ! فرمایا “مدّ” کو دیکھنا تو شدّ و مدّ سے دیکھنا، شدّ ومدّ سے دیکھا تو یہی جان پائے کہ معرکہِ حیات میں سینہ سپّر رہنا ہی کامیابی ہے! کہنا کہ ہو رہے ہیں ، کہا کہ جی رہے ہیں !
آپ سے کیا ملے جیا دھڑکنے سا لگا ہے !
جب سے بہشتِ بَونؔ میں آئے ہیں ایسا گماں ہوتا ہے کہ مر چکے ہیں !
فرمایا جنابِ سقراطؔ نے کہ ایک فلسفی اپنی موت کی نگہداشت کرتا ہے ۔ آپ نے کہا کہ تب تک کے اِس سفر میں “کامنا” ہے تو” سادھنا” بھی تو ہے!

ایسے میں کاجل کوٹھے پر بابا جی کے سینے سے لگا ہوں ، فرمایا زیر و زبر کے ساتھ” پیش” بھی دیکھو! پیچ دَر پیچ جو دَرپیش ہے اُس کو جو جان جائے وہی درویش ہے! اور ایسے جاننے کے لیے شدّ کو مدّ سے بہتر نہ جاننا، نہ سمجھنا! آپ کو “آب “کہنے والے یا “آب “کو” آپ” ہی سمجھنے والے ، باسطؔ بھائی اپنی اپنی دانست میں درست ہیں !
۔۔۔۔الف، ب، پ۔۔۔
(بَون کا بنجارہ)