Skip to content

69: نیناں بھر آئے!

بدن گداز تھا، سراسر راز تھا!
فرمایا شیخِ اکبرؔ نے کہ انسان خدا کا راز ہے۔ ہم کا یہی کہنا ہے کہ” راز” تو ہے ہی انسان خدا کا” ساز” بھی ہے ۔ بج رہا ہے بجایا جا رہا ہے .. ایسے بجتے ہوئے سازوں میں کوئی آواز کہاں کان پڑتی! آوازوں کے سنّاٹے میں ابھی بؔون لوٹے ہیں !
آپ سمجھ گئے کہ بَوؔن لَوٹے ہیں تو “لُوٹے” بھی ہوں گے! لُٹ کر ہی لوٹے ہیں ، اِسی لیے لام سے لیٹے ہیں ۔ تو صاحب درست سمجھے کہ زیر و زبر کے مسئلے در” پیش” ہیں !
ہم کہے دَر پیش ہیں ! آپ سمجھے کہ درویش ہیں !!
ہوں گے صاحب ! فرمایا جو خود کو درویش کہے وہ عاقبت نہ اندیش ہیں! درویش وہی ہے جو خاموش ہے کہ پیشگیِ حیات کو بھی نعمت جانتا ہے ! جانتا ہے کہ زندگی کا نغمہ ، غم کی غمازی کرتا کوئی سُریلا گیت ہے ، جسِے خاطرِ سماعت میں لانے والا جانتا ہے کہ وہ تشنہ لب بھی ہو تو جامِ رحمت لبالب ہے !
ہم نے سمٹ کر کہا ،”آہ”، صاحب!
آپ نے ایک بوسہ دیا اور فرمایا ، لبالب بھرے نینوں کے دو پیالے کس متوّالے کے تھے؟
ہم نے بڑھا دیے ، لبالب بھرے نینوں کے دو پیالے !
ایسے میں اباّ میاں کے ساتھ کھیتوں میں چہل قدمی کر رہا ہوں ، سِن نوّے کی دہائی کی اوّل گھڑیاں ہیں ، ہمیں پچکارے اور کہا، شہزاد پتر میرے پیچھے پیچھے دُہراو!

At Darbar Peer Syed Waris Shah,Jandiala Sher Khan, Sheikhupura, Punjab-2014


؎ کاگا چُن چُن کھائیو سب تن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو ، مجھے پیا ملن کی آس


جی صاحب !
دُہرایا ہم نے اور ایسا دُہرایا کہ ہم پر گزر ہی گیا!
کونین کے دو نینوں کے سِوا کیا بچا تھا؟ کیا بچا تھا کسی تن پر کوئی ماس؟ جسے جنّوں بشر کی شریر ٹولیوں نے نوچا نہیں تھا، کھایا نہیں تھا؟ اِن نینوں کے سِوا۔ ایام کی بست و کشاد کو وہ نوچنے کاٹنے اور دبوچنے والے کون تھے؟ جنہوں نے آیاتِ سُبحانی سے ذوقِ لحن چھین لیا، اُنہوں نے تختیوں سے حرف نہ نوچ کھائے ہوں گے؟ نوچ کھائے ، نوٹ کھائے صاحب! ایسی ہاتھا پائی میں کوئی کوڑی گن رہا ہے اور کوئی پائی پائی کو جمع کر رہا ہے .. ہم دیکھ ہی رہے تھے کہ کبیر داس ؔ کہے
؎ نہ گھر تیرا نہ گھر میرا
چڑیا، رین بسریا

اُڑ جا ہنس اکیلا!

چنانچہ کسی بدن کی گرمی کو سردی سے اور آبی کو خاکی سے ممتاز نہ سمجھنا، فرمائے نینوں کے دو پیالوں سے روشنی پی لیجیے !
نور کی نعمتیں دیکھتے ہیں اور تشنہ لب ہیں .. لبالب ہیں ، مگر تشنہ ہیں .. ایسے میں ایک شعر پیشِ خدمت ہے ؛
؎ مجھ کو معاف کیجیے رِندِ خراب جان کر
آنکھوں پہ ہونٹ رکھ دیے جامِ شراب جان کر
بادہ حرام ہی سہی آپ تو اہلِ خیر ہیں
تشنہ لبی مٹائیے کارِ ثواب جان کر
نینوں کے دو پیالے سامنے دھرے ہیں صاحب اور کتاب عشق کی طاق پر دھری ہے اور یہاں ہم بون میں لوٹے اور لیٹنے کے لیے بستر کی ٹیک درست کر رہے اور امام جلال الؔدین سیوطی کا ایک قول یاد آ گیا، فرمایا تفکر الساعة خیر مِن سِتّینِ سنةٍ یعنی ایک گھڑی بھر کا تفکر ساٹھ برس سے بہتر ہے ! یہی فرمایا فلاسفہ کہ جِدِ امجد جنابِ سقراط نے کہ
an unexamined life is not worth living
یہی سب سوچ رہے ہیں اور آپ کی یاد آ گئی ، نیناں بھر آئے .. لبالب بھرے نینوں کے دو پیالے!
لیجیے ،
پیاس بجھا لیجیے !

از بَون کا بنجارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے