ہر ہر حرف پر جھکنے والے نے ہر ہر نقطے پر سجدہ کیا تھا۔
آپ نے پوچھا تو جو لفظوں کے درمیان خلا تھا ، وہاں کیا تھا؟ وہاں ہر ہر حرف پر جھکنے والے نے اور ہر ہر نقطے پر سجدہ کرنے والے نے ، “قیام “ کیا تھا! صوم وصلاة کو پابندِ اوقات نہ کر سکے، ہم کسی سے کوئی بات نہ کر سکے!
لوکی پنج ویلے ، عاشق ہر ویلے
پنجابی زبان کا محاورہ ہے ، ویلے دیاں نمازاں تہ کَویلے دیا ٹکڑاں !
ویلے اور کویلے میں ، ہم ویلے ٹھہرے ! بے کاریِ حیات میں کوئی معمہ جاذبِ نظر نہ ہوا! کوئی سائباں گھر نہ ہوا !
؎ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا !
آپ پر پھیلی پہروں کی خاموشی دیکھتے تو جنابِ یحییٰؔ کے باپ ذکریاؔ پر گزرنے والی خاموشی کے ایاّم نظر آ جاتے .. ایّام میں ، قیام میں ، کوئی کوئی با ادب ٹھہرا ہو تو کیا دیکھتا ہے؟ آپ نے استفسار کیا۔
جی، صاحب، جُود و سخا دیکھتا ہے! کرم اور عطا دیکھتا ہے! اور لیکھ کو دیکھ کر ہی لکھتا ہے! یحییٰ خان صاحبؔ نے پچکارا کہ مقدر کے لیکھ اور ہتھیلی کی ریکھ میں بیٹا دیکھو !
اور یاد رہے کہ ایسے ب سے دیکھنے سے پہلے ، دم کی سادھنا کر لینا!
جس نے پکارا اپنے ڈھنگ سے پکارا! صاحب ، کوئی ہارن بجاتا ہے تو کوئی ڈھول پیٹتا ہے! کسی نے گھنٹی بجائی تو کسی نے دستک دی!
ایسے میں ایّام تو ہیں لیکن طفل کے ہیں، ہم سے پوچھا گیا، گنتی کتنی آتی ہے ؟
کتنی گنتی، گنتی کتنی، گنتی گننی کتنی کٹھن تھی. . . ، ہم نے ذرا سوچا اور کہے دس تک!
“ دستک “ کا شمار ہو جائے تو اور گننے والا کیا شمار کرتا؟
فرمایا دس تک دم لو!
دستک دو!
اب کہ اوائلِ شباب ہے ، شفیق استاد جناب عبدؔاللہ بھٹی صاحب کی آغوش میں ہوں ، ہم گلبرگ لاہور کے ایک باغیچے میں بیٹھے ہیں ۔ فرمائے، باسط بھائی بتائیں آپ کو کیا چاہیے؟
ہمیں وہ دستک چاہیے تھی صاحب ! من بسیا ، دس تک کا شمار مانگتا تھا!
ہمیں ساغرؔ یاد آ گئے ، ڈبڈباتی آنکھوں سے اُن کی طرف دیکھنے لگا اور عرض کیا؛
؎ میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی سدا یاد نہیں !
اور ایسے ہی ہوا، کعبہ و کلیسا، دَیر و معبد ہر ہر حرف پر جھکے اور ہر ہر نقطے پر سجدہ بجا لائے ! کوئی تمنا نہیں تھی، سدا نہیں تھی، آواز نہیں تھی! اور جو تھی تو دستک تھی! دس تک تھی!
اُنہی دستکوں میں ، دستگیروں میں
راہبروں میں ، راہ گیروں میں ، نگر نگر کی فقیریوں میں وہ گاتا جا رہا تھا، ہوتا جا رہا تھا!