Skip to content

نشست 44: پہلا چاند

مہینے پر “مہینہ” چلا آرہا ہے.. جی صاحب! پورے بارہ مہینے تھے .. کیا دیکھتے ہیں کہ چلے آ رہے ہیں ! ایک ماہ واری کی سی صورتِ حال تھی، رشتوں کی بھی ، مہینوں کی بھی.. کوئی کسی رستے سے کوئی کسی طور سے ، چلا آ رہا ہے ، کوئی رکتا نہیں، ٹھہرتا نہیں !

آپ کہے مہینہ تھا؟ ہم عرض کیے “ ماہ واری” تھی صاحب! ہر ہر ماہ کے ماں واری تھی صاحب! ابھی شعبان ہے، تو کبھی رمضان! ہم کہے کہ نسلِ آدمی کی ماہواری بھی اُدھار کی تھی۔ تقویم آدمی اُدھار تھی صاحب! کبھی اِس طرف ہے، تو کبھی وہاں اُس پار تھی صاحب!

وقت کی گرہ کو لگانے والے کوئی بت پرست تھے صاحب! جنہیں یہ بوجھ ہوئی کہ روز و شب کی گردشوں کو نام دیں ، کوئی نرالا کام دیں ! تو ایسے میں ستارہ شناسوں نے وقت کے باٹ کو تین میں باٹا! باٹا! باٹا! توبہ صاحب ! جی باٹا پور سے باٹا کی جوتیوں تک ! ہر چیز میں بٹوارا ہی تھا! بٹوارا ہوتا تو بٹورا بھی جاتا ! خیر ! باٹ تین تھے صاحب ! ماضی، حال اور مستقبل! جی مستقل میٹر خراب چل رہا ہے ! آپ سمجھ گئے کہ “بجلی کا بِل” ہے! کوئی مستقبل نہیں ہے ! کسی کو کوئی عقل نہیں ہے؟

تھی ناں، صاحب! اِسی لیے تو بارہ باٹوں کو تین تین میں توڑا گیا تھا! اور اُن سے ایک” کھیل” جاری ہے .. کیا ہے کہ کوئی اُس میں خود سے دو چار باٹ ملا لیے ! یہاں وہاں کے مہینے اوپر نیچے کر دیے ! ہائے صاحب! ہم پوچھے کہ کیوں “کیے” ہیں ؟ کوئی کیا کہتا کہ کیوں “ہوئے” ہیں؟ ہر مہینہ اَشک بار تھا! برابر چلا جا رہا تھا! کوئی رکنے کا نہیں، کوئی ٹھہرنے کا نہیں !

ہم سمجھ گئے کہ مہینوں کی عبادت یہی ہے کہ آدمی کا طواف کرتے رہیں ! اور آدمی؟ آدمی کسی بازی گر کی طرح باٹ پر باٹ کی بازی کھیلے ! بات پر بات کی اور بار بار کی بازی ! کھیلی جا رہی تھی صاحب! اِس کھیل کا ہر کھلاڑی” صائم” نہ ہو، تو کیا ہو؟ جو مہینوں کہ گردشوں میں دھیان باندھ رہا ہے ، اپنے باٹ باندھ رہا ہے ! دھیان کا باندھنا، باٹوں سے کھیلنے کا سا تھا کہ وقت کی گھڑی ہوا میں اُچھالتا پھرے! ہوتا پھرے! جان لے کہ چلتے پھرتے اور ہوتے جاتے میں کوئی فرق نہیں ہے !

بارہ بتوں کے اِس دَیر میں کوئی کسی مہینے کو پُوج رہا ہے اور کوئی کسی ماہ جبین کو پوچھ رہا ہے ! آہ ! صاحب ، آپ کو پُوجے اور آپ ہی کا نشاں پوچھے، پوچھتے رہے ہیں ۔ جنابِ ابراہیم کی اٰل میں بھی تو اَبر رحیم کا لہو ہے صاحب! آپ پوچھے اُسی کی ماہ واری ہے؟ جی صاحب ہے !

۔۔

غالب کہے کہ

؎ قید ِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

ہم سمجھے کہ

صوم و صلات و چندِ نم اصل میں دونوں ایک ہیں

ہوش سے پہلے آدمی مہینوں سے جان چھڑائے کیوں

ماہ واری مبارک

(بَون کا بنجارہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے