Skip to content

نشست 38: سَراپا!

جی صاحب، سَراپا، سر تا پا ، سِیاپا تھا! آپ کہے ، سِیاہ پَا تھا؟ جی صاحب! سر تا پا ، سیاہ تھا! ایک وجودِ سیّاہ! آپ پوچھے، کیا سایہ بھی سیاہ تھا؟ ہائے، ہماری آہ نکلی، آہ بھی سیاہ تھی! کیا کرتے ! روشنوں کے شہر سے نکلے تو اندھیروں کے بنجر ویرانے ملے ! جی آپ سے ملنے بہانے ہر نور و ظلمت کی سیاحی کی! آپ کہے سیاہی کی؟ جی صاحب! کالی دوات سے نکلی سیاہی بھی سیاہ ہی تھی!

اب کہ خود کو مِس نگینہ ؔ کے یہاں ٹیوشن پاتے ہیں ! جی صاحب، پہلے اسکول پھر ٹویشن اور شام کو “قاری صاحب” آ جاتے ! قاری ہی قاری! بخدا صاحب، ہمارے قاری صاحب، ایسے کاری تھے کہ ستّر برس کی عمر میں بھی نکاح سے مزّین تھے! آپ آنکھ جھپکے چھیڑنے لگے کہ آپ بھی زنّ سے مزیّن ہو جائیے! ہم کہے کہ اَجی چھوڑیے ! ہم سے مِس نگینہ پر کچھ سُن لیجیے! سنتا کون تھا صاحب! دیکھتا کون ہے؟ اِقراؔ اور ربیعہؔ ایک ساتھ بیٹھی ہیں ، ٹویشن میں ہی ہیں ! ” ٹویشن “ چل رہی ہے!

ایک دوسرے سے “سیاہی” مانگ رہی ہے ، “پین” میں ڈالنی ہے ! ہم نے دوات کھولی تو “نیلی” تھی صاحب! ہر ہر روشنائی کو آپ سیاہ ہی سمجھتے رہے ، کہتے رہے ! ہم کیا کرتے دیکھتے رہے ! قاری کو کاری کہتے رہے ۔ اور اب کو سمجھتے بھی ہے کہ ریڈر کا ہونا “کار” کے ہونے کے مصداق ہو چکا ہے! اور گاڑی اُسی کو ملے گی جس کسی کے پاس قاری ہوتا ہے! جی قاری صاحب، چھوٹی پر ہیں آج نہیں آئیں گے! آپ قلم دوات کا صواد خود لیجیے!

ہم دیکھے کہ “ص” کہاں ہے! ذائقہ کہاں ہے؟ کسی لذت میں ! لذتیں ، بہ ہر طور زحمتیں ہی تو ہیں ! واہ صاحب، ایک ٹوٹے پھوٹے نکڑ کے مکان پر علَم دراز تھا۔ محلہ احاطہ آب کاری ؔ میں ہیں ، گزر رہے ہیں ! دو بہن بھائی نکلتے ہیں اور ہمارے ساتھ اسکول کو چلے جا رہے ہیں ۔ ہم پوچھے “تمہارا نام کیا ہے”، وہ کہنے لگی ، لیلیٰ! علم ہی علم ، قلم ہی قلم! علَم اُٹھانے والوں کے سر قلم! قلم اُٹھانے والوں کے بھی قلاقلم! طلا طلم طلاتم طلاتم ، طلاتم..

ہندی فلم کا گیت چل رہا ہے ، ہم قلم والے مکان کے ساتھ سے گزر رہے ہیں ، اُس ہو گزرنے میں کیا آپ کی لیلیٰ ہماری نہ ہوئی تھی؟ ہوئی تھی اور الف لیلیٰ کی ساری داستانیں ایک طرف ، رات کو اُس مکان پر سے گزرنا دوسری طرف نہ ہوا تھا؟ ہونا ” لیلہ و نہار “ کا ہونا ہی ہے ! ہر لیلہ نہار منہ ہی دیکھی تھی! آپ کہے “انہار” ہے؟ ہم کہے صاحب “اشتہار “ ہے ! !!!!! اشتہار دیجیے اور چھپوا لیجیے !

ہر چھاپے پر سیاہی تھی! اب کہ اقراؔ کے ہاتھ میں “کاربن پیپر” ہے کہتی ہے اِس سے جو بھی لکھیں وہ نیچے والے صفحات پر بھی آ جاتا ہے !!! وہ کاربن پیپیر بھی سیاہ ہی تھا صاحب! ہم کیسے صدمے سے دو چار ہو گئے تھے .. دیوانو کی طرح ہر ہر صفحے پر ایک ہی عبارت، ایک ہی شرارت لکھ رہے تھے! تقدیر کے صفحات پر کاربن پیپر تھا یا نہیں تھا؟ ہم نہیں جانتے ! لیکن اتنہا جانتے ہیں کہ ہستی کی تہوں میں ، تہ در تہ ایک سیاہی تھی! اُسی سیاہی سے لکھ رہے ہیں ، ہو رہے ہیں !

جی اب اشتہار کا وقفہ دیجیے ! کمرشل چل رہے ہیں !

میوٹ ؔ کر دیجیے ! بعد میں بات ہو گی!

(بون کا بنجارہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے