“جبرئیؔل کا پَر” ، کہے تو آپ خفا ہوئے کہ “پر” ور، کی بات نہ کیجیے “ہنگامے” ہو رہے ہیں ! ہم نے فوراًسے ڈھول پیٹا، کہ” ہنگامہ” تو ہو گا! یعنی اگر “نورالحسؔن صاحب، فنگامہؔ کر سکتے ہیں تو لوگوں کو ہنگامہ بھی کرنا چاہیے ۔ ہو تو رہا ہے “ہنگامہ” اور کتنا ہو؟ بی سی ! ، جی تو BC کو کوئی ، “سی ڈی” کہہ رہا ہے اور کوئی ، سی ڈی ، کو ، “بی پی”! اب کہ ڈی پؔی ایس اسکول ، میں ہیں۔ جہاں مرحوم ڈی پؔی صاحب ہمارے اسپورٹس اور ڈِسپلن کے کوچ تھے۔ سب ڈیؔ پی کہے اور “بکرؔ” نے اُنہیں “بیؔ سی” کہا۔ حالانکہ سب اُسے “ٹیؔ سی” کہتے تھے۔ عجب معاملہ دیکھتے ہیں ، کہ اِک مدت تک آدمی انہونی آوازیں نکالتا رہتا ہے ۔جیسا کہ ، “ بی سی” !” ٹی سی”! سی سی ! توبہ ہے صاحب ! !
“ٹی سی” ہے، صاحب! آپ نے دیکھا، اور برابر پوچھا، ٹی سی ہے تو” ٹی سا”، بھی ہو گا۔ ہم نے دیکھا ، ٹٹولا، آپ کو دیکھ کر عرض کیے ،” ٹی، سا” تو نہیں ہے بڑے بابو! ایک “ٹیس” ہے ، اُس طرف پڑی ہے، آپ کو پیش کیے! آپ پیشانی پڑھ لیے اور پریشانی بھی ! پرانی ٹیس ہے ، کتنے میں دو گے؟ آپ پوچھا کیے!
آپ خریدار تھے، صاحب! آپ سا خریدار ہو، تو آدمی کیوں نہ خود کو بیچ ڈالے! جی صاحب ، آپ کو بیچ ڈالے اور کہے کہ خرید لیجیے مجھے ! کوئی مَنچلا ، چلِّایا، کہنے لگا ،” دو گے”؟ ہم کیا کہتے ، دو گے؟ کا جواب کیا دیتے ، لفظوں کے ڈھیر میں ، “دھوکے” ہی “دھوکے” پڑے تھے۔ جی ، جی ، وہاں اُس طرف دو گئے بھی ہیں ! ہم نے دیکھے ہیں ! جو دو گئے ہیں ، وہ سو گئے ہیں ! سو گئے تھے صاحب! آپ کی باہنوں میں آتے ہی، کیسے سو گئے تھے ہم! ایسے جیسے جبریل کے پروں میں کھو گئے تھے ہم ! اب کہ ہیں، اور ہونا ، “پر” ہونا ہی ہے !
نہ ہونے میں ، پَر ہونا ، ممکن کیا گیا !
غالب ؔ پوچھے، یہ جلوہ گری کس کی ہے؟
“پر” دہ چھوڑا ہے جو اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے !
میں آپ کا ہی پردہ تھا! “پ” ہمیں اتنی پیاری تھی کہ جی ہی جی میں کتنی ہی مرتبہ ، میرؔ کو “پیر” کہہ چکے تھے! ہونا ہو تو میرؔ، پیر، فقیر کا ہی ہو!
پَرسلام!
(بَون کا بنجارہ)