
کوئی ہو تو کراہتے ہیں، نہ ہو تو سرّاہتے ہیں ، جی صاحب! کوئی سنے تو کُوک ہے، نہ سُنے تو ہُوک ہے ! کاف، کوک، کاف کُوک اور کاف ہی ہُوک! اب کہ بیمار ہیں ، طبیبِ عیار ڈھونڈتے ہیں ، اِک مدت تلاش کیے آپ کو! آپ کے لیے گلی گلی، قریہ قریہ چھان بیٹھے، آپ سے ملاقات کرنی تھی مجھے، شفا چاہیے تھی مجھے! آپ کو دیکھنے کے لیے ، کیسے کیسے عطائیوں کو دیکھ بیٹھے تھے.. جی صاحب اب کے ابا میاں کی گود میں ہیں کلینک پر آئے ہیں ! جی معروف ادیب مرزا اطؔہر بیگ صاحب کے بھائی مرزا طاؔہر بیگ صاحب کے کلینک پر ، پہلا ٹیکا لگا تھا صاحب! ابھی تک برقرار ہے .. ٹیکے سے ٹیکا نکلتا رہا.. بدن ہے کہ سوئیاں ہیں .. نیڈلز ہی نیڈلز! ریڈرز ہی ریڈرز ! آپ کو سبھی کے قصے سُناوں؟ فرصت ہو گی آپ کے پاس صاحب؟ آپ کہنے لگے ابھی تو آئے ہو، ذرا دم لو! دم تو لو! آپ دم دینے لگے صاحب! پہلا دم، ایک قدم.. اب کہ ایامِ طفلی ہے ، ابا میاں سے درس لے رہے ہیں ! جی صاحب ! دیکھنے کا درس، ہونے کا درس! جلدی کرو پھر اسکول بھی جانا ہے ! مرحوم نے چند ایک ایسی باتیں گھوٹ دی ، کہ اب دم گھٹتا ہے صاحب، گھٹ ہی رہا ہے ! وہ سُناوں آپ کو، بتاوں آپ کو؟ کہ دم لوں! اوّل یاد کیے اشعار میں فرمایا ، شہزاد پُتر یاد کر لو!
؎ کاگا سب تن کھائیو، مرا چُن چُن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیوں مُجھے پیا ملن کی آس
جی صاحب ، ننھے نکورے نینیا سے ہم دیکھا کیے ! آپ کی طرف ! پڑھتے گئے ، ہر ہر سبق، لیتے گئے ہر ہر درس.. کیا ہے کہ قاری ہیں ، کیا ہے کہ صاحب ہیں ! قاری صاحب اور نورانی قائدہ!
. . .
اب کہ بھی بیمار ہیں ، اتنے میں جگؔجیت صاحب گنگنانے لگے؛
؎ کس کو آتی ہے مسیحائی کِسے آواز دوں
غاؔلب پکارے، ابنِ مریم ہوا کرے کوئی ..
اب کہ ابنِ مریم سا مسیحا مل جائے تو کیا خوب ہو! اتنے میں میؔر فرمائے ، مریض بڑھتا گیا .. جُوں جُوں دوا کی !
جی اِنہی اشعار و افکار نے بیمار کیا ہے صاحب !
ایسے میں عزیز میاؔں قوالی کرنے لگے سامنے ہارمونیم ہے اور باآوازِ بلند کہتے ہیں ؎ مریضِ محبت اُنہی کا فسانہ سناتا رہا .. دم نکلتے نکلتے!
جی صاحب دم نکل رہا ہے .. سانسوں کی مالا پہنے ہیں ، لیکن کیا ہے کہ سانسیں اُدھار ہیں ! اب کہ قریہ کے ایک پنسار اسٹور پر ہیں سامنے حاجی مشتاؔق مرحوم کی دکان ہے، ہم سے تنگ آ کر لکھ بیٹھے ، جنگ اور اُدھار دونوں بند ہیں ۔ ہم غلط سمجھے صاحب! چلے گئے اُدھار لینے .. کیسے پکارتے تھےآپ کو.. کس شدت سے .. کہ اُسے کہیں کہ ہمیں “رنگ” دے دے ! رنگ، نگار.. تراشیدہ ، رنگ ریزہ! احاطہ آبکاؔری کی اُسی نکڑ سے آج بھی ٹیک لگائے ہیں جیسے ہماری دیوارِ گریہ ہو صاحب۔ رنگوں کی سبھی قلمیں نوچ کھائے تھے ہم .. پھر خریدنے جاتے ہیں .. رنگ بھرنے تھے مجھے .. اِس خالی خالی دنیا میں .. حاجی صاحب نے ہمیں دیکھا اور کہا “رنگ نہیں ہیں “ ، پیچھے ہی پڑھے ہوئے تھے صاحب ! ہم گڑگڑائے بھی کہ “دیکھتے “ ہیں ۔ رنگ موجود تھے صاحب ، رنگ تھے ، رسائی نہیں تھی ! جی صاحب ، رسائی موجود نہیں تھی، رَسوئی، رُسوائی، جگ ہنسائی ، سبھی تھے ، رسائی نہیں تھی۔ ہم گھر آئے اور لغت میں ، مشتاق کا معنی دیکھے، پلٹ پہنچے! بتایا بھی کہ آپ کا اشتیاق ہے ، بہت شوق سے رنگ بھریں گے ، دے دیجیے !
خیر صاحب ابا میاں سے اشعار کا وہ زیور ملا، کہ کیا بتلاوں، مختصر یہ کہ بیمار ہیں ! بیمارِ عطارؔ ہیں ! جی فریدؔ بھی ہیں اور بیسیوں فریب بھی!