آج آپ کی آمد ہوئی ہمیں بوقت سحری جگا کر چپکے سے کہے ؛ ب کی بھیک سے فقر کا بھلا کیا ناطہ ہے؟ حاصل لا حاصل کی بحث آدمی کرے ہی کیوں؟ ہم دو زانوں بیٹھے اور ہر حاصل اور لاحاصل کو ، لا کی تلوار سے سینچنے لگے۔۔۔ حاصل، لاحاصل!
ابھی سانس درست کرنے ہی لگے کہ لتاؔ جی گنگنانے لگیں ..؛
ع چھوڑو بے کار کی باتوں میں کہیں بیت نہ جائے رینا!
اسما و مسمیٰ و موسوم کی باتیں بھی، لتا ؔجی کے مطابق بے کار ہی تھیں۔ بے کار ہی ہوں گی! کار ‘ب’ کار! ہم نے قاف کی قلم سے لکھنا چاہا تواستسفارفرمائے، کہ بسمل میاں کے چاکر ہو، لکھتے کیوں ہو!
ب خدا ہم کبھی نہ لکھتے، لیکن کیا ہے کہ بچپن میں پڑی بخت کی تختیاں ..
جی صاحب! دھر میں اتری سبھی سختیاں
لکھی ہوئی تھیں !
لکھی گئی تھیں !
لکھو بیٹا! آنٹی بشارت نے املا لکھوانا جاری رکھی،
ب : بھکاری!
ب : فقیر!
ہمیں اہلیانِ تصوّف کی اصطلاحات سے اوّل چچا جان نے متعارف کروایا تھا۔آپ نے بچپن میں ہی دولت مند اور امیر میں فرق بیان فرمایا، اِسی طرح فقیر اور گداگری کے رموز بھی سمجھا دیے۔ توبہ صاحب ، ایک مرتبہ جامعہ کے کتب خانے میں کاری بے کاری کر رہا تھا۔ لغتوں کے باب میں ہر فلسفی اور صوفی کی اصطلاحات کا جدول پڑا تھا! ہم سمجھ گئے کہ ب بھیک سے فقر کا کوئی جوڑ تو ہے!
یونہی ہمیں تو بھگت بھیکھن کی بانی سے دو شبدھ یاد آئے، اور آپ کی خدمت میں پیش کیے ؛
؎ بھیکھا فقیری کٹھن ہے جو لوکاں بہانے کھیل
جھُگا پھونکے جو آپنا تو صاحب کا میل
اور پھر عرض کیے؛
؎ بھیکا کہاوت کٹھن ہے جو لگا پیڑ کھجور
چڑھے تو چاکھے پریم رس ، گرے تو چکنا چور
آپ ہماری دیدہ دلیری پر شاد ہوئے، اور امام الکشیری کے الرسالة سے روایت فرمائی ، کہ ایک مرتبہ ایک شخص جنابِ ذوالنون مصری کے یہاں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھنے لگا؛ عارف کون ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا ، ابھی یہاں ہی تھا.. ابھی کہ ابھی تھا! ابھی اور کبھی میں بھی ؛
آپ نے ب آنکھوں سے دیکھا اور کہے کہ با کا ہی فرق ہے ! ابھی اور کبھی میں جو ب کا فرق ہے اُسی کو سمجھنے والا عارف ہے۔
ابھی میں ، سبھی، کبھی ملائے ہم دھیان باندھے اور سمجھنے کے جوکھ سہتے رہے ، پھر فرمائے کہ اِسی طرح تذکرة غوثیہ میں قلندر غوث علی شاہ فرماتے ہیں کہ فقیری ، تو یوں ہے جیسے کسی نے کان میں کوئی بات کہہ دی ہو.. آہ صاحب .. لگائے نہ لگے ، بجھائے نہ بجھے .. ب کی آگ! ب کی تاب!
وہ بات کیا تھی؟ جو کسی نے کان میں کہہ دی ہو گی! فرمائے اُس سرگوشی کا گھاتک، زیرک ہے!
کبیرؔ داس نے تو رمز کی بات یوں بتلائی؛
؎ کہن سنن کی ہے نہیں دیکھا دیکھی “بات “
دلہا دلہن مل گئے پھیکی پڑی بارات
؎ بھیکھا” بات” اگم کی کہن سنن میں ناں !
جو جانے سو نا کہے ، جو کہے سو جانے ناں !
آب ب کو بھیک ملی اور آج ب سے بھیگ رہے ہیں !