الف ، ب . . . بڑی یے!
لفظوں کے تسلسل میں میں آپ کے یہاں حاضر ہوا، خاموش تھا! آپ فرمائے کہ ہستی کے ستّر ہزار فریب ہیں ، اور ہر فریب کو لکھنے والے” کاتب” نے جو بھی لکھا، وہ “ب “سے ہی لکھا!
میں سمجھ گیا کہ دادا غالب ؔ کا کہا دُرست تھا ، چناچہ شعر کی اصلاح لی؛
؎ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
فریبِ ہستی کے ستّر دائروں میں ، جو عالم ہے ، وہ ب کا ہی عالم ہے!
ہم اردو میں “ ہُو کا عالم تو سنتے آئے تھے ، آپ خدارا ، یہ “ب “ اور” ھُو” کے عالم پر راہنمائی فرما دیں ! میں نے عرض کی اور چپکے سے دیکھنے لگا، چھپ چھپ کر دیکھنے لگا، کیا دیکھتا ہوں کہ ہر طرف “ ب “ کا عالم ہے، پھر دیکھا تو “ ھُو “ کا عالم نظر آیا ہے !
ب ، ھُو، با ہو، یا ھُو
آپ فرمائے زندگی کو ب اور ھُو کے عالم میں ایسے گزارو، جیسے ہو ہی نہیں !
تھے ہی نہیں، تھا تو بس ایکِ دامِ خیال ہی تھا!
آپ کے خیال کا دامن!
ہم نے ب سے تھام لیا تھا۔ اتنے میں شفائی صاحب مل گئے ، جگجیت سنگھ کی آواز میں دعا مانگ رہے تھے !
؎ درد سے میرا دامن بھر دے، یا اللہ!
پھر چاہے دیوانہ کر دے، یا اللہ!
ہم بھی کہے ، ب سے میرا دامن بھر دے !
یا الف. . . لام . . . میم!
۔۔۔۔